ژوہائی (اصل میڈیا ڈیسک) چین نے ژوہائی ایئر شو میں اپنی بڑھتی ہوئی جدید فضائی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور اس میں نگرانی کے ڈرون طیارے بھی شامل ہیں۔ دنیا کے لیے جدید ڈرون ٹیکنالوجی کے میدان میں چین مغربی ممالک کا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
چین کے جنوبی ساحلی شہر ژوہائی میں ہونے والا یہ ملک کا سب سے بڑا ایئر شو ہے۔ اس کا انعقاد ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب بیجنگ حکومت جدید دور کی ممکنہ جنگوں کے لیے اپنی فوج کو 2035ء تک مکمل طور پر تیار کرنا چاہتا ہے۔
چین اب بھی اپنے جنگی سازو سامان میں جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے امریکا سے پیچھے ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فرق اب انتہائی کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس سال امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو امریکا کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔
منگل کے روز چینی فضائیہ کی ایروبیٹک ٹیم نے فضا میں مختلف رنگوں کی لائینیں بنائیں جبکہ شو میں شریک افراد نے نے نئے جیٹ طیاروں کے ساتھ ساتھ ڈرونز اور لڑاکا ہیلی کاپٹروں کا معائنہ کیا۔ اس شو میں چین نے مقامی سطح پر تیارکردہ CH-6 نامی ڈرون بھی نمائش کے لیے رکھا ہے، جس کے پروں کی لمبائی 20.5 میٹر ہے اور اس میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔
اوپن سورس انٹیلی جنس ایجنسی جینز کے مطابق یہ ڈرون نگرانی کے ساتھ ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہتھیار بھی لے جا سکتا ہے۔ ڈرون بنانے والی ایرو اسپیس سی ایچ۔ یو اے وی کمپنی کے جنرل منیجر کن یونگ منگ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”یہ ڈرون دس ہزار میٹر کی بلندی پر اڑتا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر اسے پندرہ ہزار میٹر کی بلندی تک اڑایا جا سکتا ہے۔‘‘
جنرل منیجر کن یونگ منگ کا مزید کہنا تھا، ”یہ سابقہ ماڈلز کی نسبت طویل دورانیے تک پرواز کر سکتا ہے۔ یہ بغیر کسی وقت کی حد کے اور اعلی کارکردگی کے ساتھ طویل مشنز کو سرانجام دے سکتا ہے۔‘‘
اس شو میں سرحدی نگرانی اور سمندری گشت کے لیے WZ-7 نامی ڈرون بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ ڈرون انتہائی اونچائی پر پرواز کر سکتا ہے۔ اسی طرح شو میں J-16D لڑاکا طیارہ بھی شامل ہے، جو الیکٹرانک آلات کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چینی میڈیا کے مطابق ان دونوں کو چینی ایئر فورس میں شامل کیا جا چکا ہے۔ فوجی تبصرہ نگار سونگ ژونگ پنگ کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”یہ دونوں آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں اہم کردار ادا کریں گے۔‘‘
فوجی ماہرین کے مطابق چین واضح طور پر خود کو جدید ڈرونز کا متبادل سپلائر قرار دے رہا ہے۔ اوپن سورس انٹیلی جنس ایجنسی جینز کے تجزیہ کار کیلون وونگ کا کہنا تھا، ” چین کے ڈرون جدید بھی ہے اور قابل خرید بھی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”امریکا اور یورپی ممالک شراکت داروں کے منتخب گروپ کے باہر اس طرح کے سامان کی فراہمی سے ہچکچاتے رہے ہیں۔‘‘
چینی ڈرون پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں جنگی کارروائیاں کر چکے ہیں اور انہیں کئی دیگر خطوں میں بھی فروخت کیا جا چکا ہے۔
سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے چینی فوجی ماہر جیمز چار کہتے ہیں کہ اس دوران J-16D جنگی طیاروں نے پیپلز لبریشن آرمی کی جنگی صلاحیتوں کو بہتر بنا دیا ہے۔ یہ جہاز دشمن کے الیکڑانک آلات کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں ناکارہ کر دیتا ہے،”یہ چینی فوج کو فضائی الیکٹرانک جنگ میں سبقت فراہم کرتا ہے، جو کہ اہم فضائی دفاعی صلاحیتوں میں سے ایک ہے۔‘‘
ژوہائی ایئرشو کا انعقاد عمومی طور پر ہر دو سال بعد ہوتا ہے لیکن گزشتہ برس کووڈ کی وبا کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔