علامہ شیخ محمد اقبال کی شاعری پر اگر تھوڑی گہری نظر سے غور و فکر کی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ علامہ شیخ محمد اقبال کے کلام میں عالم اسلام میں سے سب سے زیادہ افغانستان کا ذکر ملتا ہے۔شاید اسی وجہ سے کلام اقبال کی چھ کتابیں فارسی اور چار اُردو میں ہیں۔شاید فلسفی شاعر کو گمان تھا کہ نشاةثانیہ اسی اسلامی افغانستان سے شروع ہو گا۔ علامہ اقبال نے اسی لیے افغان قوم کو اپنی شاعری میں اپنا شاندار ماضی یاد دلانے کی کوشش کی۔وہ شاہی مہمان کی حیثیت افغانستان گئے تھے۔ ہندوستان میں افغانی سفیر جناب صلاح الدین سلجوقی علامہ اقبال کو اپنا مرشد کہا کرتے تھے۔اپنی ایک شاعری کے مجموعہ” ضرب کلیم” کو علامہ اقبال نے افغانستان کے بادشاہ ا مان اللہ کے نام منسو ب کیا تھا۔ اس میں امان اللہ کو کہا گیا کہ اسلام کی شوکت کی غرض سے مسلم دنیا کا اقدار اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اقبالی کے دور میں انگریزوں اور افغانستان کے درمیان تیسری جنگ ہوئی۔اگست 1899ء کو انگریز نے راولپنڈی معاہدہ کے تحت افغانستان کی مکمل خود مختیاری کو تسلیم کر لیا تھا۔ امان اللہ خان نے کابل یونیورسٹی بنائی،جدید تعلیم کا اجراء کیا۔زراعت،اور صنعت و حرفت پر کام کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ روس نے عثمانیوں سے ترکی سے سنکیاک تک کے علاقے چھین کر دریائے آمو تک پہنچ گئے تھے۔ چیچینیا کے امام شامل ساٹھ برس سرخ ریچھ روس سے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے جہاد کرتے رہے۔ دوسری طرف افریقہ اور ایشیا پر برطانوی قبضہ تھا۔ برطانیہ سفید ریچھ روس کو برعظیم تک آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے تدبیریں کر رہا تھا۔نادر شاہ کے زمانے میں علامہ اقبال نے افغانیوں کو خطاب کرتے فارسی اشعار میںکہاکہ:۔ (اُردودترجمہ) اے آب و گل کے بنے ہوئے لوگو آئو میرے گرد حلقہ بنائو۔میرے سینے میںجو درد ہے وہ تھارے ہی اجدادسے لیا ہے۔ علامہ اقبال نے یورپ کی قومیں کا غرور توڑنے کے لیے مسلمانوں اور خاص کر افغانیوں کو جگایا۔علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں مسلم قوم کو باور کرایا کہ یورپ کی یہ ابلیسی کھیل ہے۔ اس زمانے میں اپنا شعری مجموعہ ضرب کلیم تیار کیا۔ ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوںکے، نام نظم میں اس طرح گویا ہوئے کہ:۔
لاکر برہمنوں کو سیاست کے بیچ میں زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو وہ فاقہ کش کی موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمد ۖ اِس کے بدن سے نکال دو فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج ملا کو ان کے کوہ ودمن سے نکال دو
علامہ اقبال فرقہ پرست ملا اورہندوستان میں متحدہ ہندو قومیت کے فریب کاشکار ہونے والے مسلمان علما کے خلاف تھے۔ مگر افغانستان کے ملا کی تعریف کرتے تھے۔ کیونکہ افغانستان کا ملا حریت فکر اور آزادی کا متوالا اور کانگریسی ملا کے خلاف تھا۔ علامہ اقبال علما حق کے طرفدار ہیں ۔ملاہیت کو حقیقی اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ جبکہ افغان ملا جو اب بھی اسی حریت طرز کی سوچ رکھتا، جس طرز کے افغان ملا نے برطانوی سامراج کو شکست فاش دی تھی۔اقبال کے مطابق افغان کا ملا پورے ایشیا پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ برسوں پہلے علامہ اقبال نے جو کہا تھا کہ افغانستان ایشیا کا دل ہے۔ اگر دل میں خرابی ہو گی۔ تو پورے ایشیا میں خرابی ہو گی۔ اور دل میں سکون ہو گا۔ توایشیا میں سکون ہو گا۔کیا اب افغانستان، جس نے چالیس سال تک لڑ کر،پہلے سرمایادارانہ نظام کے پجاری برطانیہ کو ،روسی کیمونسٹ استعمارکو اور اب جدید استعمار کے اڑتا یس نیٹو اتحادی صلیبی فوجوں کے ہیڈ امریکا کے خلاف جہاد کر کے انہیں شکست فاش نہیں دی؟ اپنے ملک سے برطانیہ جس کے مقبوضہ ملکوں کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا کو شکست دے کو اپنے
ملک سے نہیں نکالاتھا۔؟ اب برطانیہ میںسور ج نظر ہی نہیں آتا۔کیمونسٹ رو س جو آدھے یورپ اور وسط ایشیا پر قابض ہونے کے بعد کے بعد خلیج کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا اس کا خواب بھی چکناچور کیا۔ روس کی شکست سے وسط ایشیا کی چھ اسلامی ریاستوںقازقستان،کرغیزستان ،اُزبکستان، ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں ۔ ادھا مشرقی یورپ آذاد ہوا۔ اور دیوار برلن نہیں ٹوٹٹی تھی؟۔امریکا جو دنیا میں نیو ورلڈ آڈر کے تکبر میں مبتلا تھا، اور وہ بھی افغانیوں کی روس کی شکست کے بعد اسے مسلمانوں کی قربانیوں سے ملا تھا ختم ہوا۔نیو ورلڈ آڈر کو افغانیوں نے ختم کیا۔ اب افغانستان آزاد ہے۔کیاافغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں ہے؟افغانیوں سے علامہ اقبال ، شاعر حیریت ، ضرب کلیم کے آخر میںمیں اس طرح مخاطب ہواتھا کہ:۔ رومی بدلے،شامی بدلے بدلا ہندوستان تو بھی اے فرزند کہستان اپنی خودی پہچان اپنی خودی پہچان او غافل افغان موسم، اچھا، پانی وافر، مٹی بھی ذرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیا دہقان اپنی خودی پہچان او غافل افغان اونچی جس کی لہر نہیں ہے،وہ کیسادریا ہے جس کی ہوئیں تند نہیں ہے وہ کیسا طوفان اپنی خودی پہچان او غافل افغان ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا آپ اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان اپنی خودی پہچان او غافل افغان تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج عالم فاضل بیچ رہے اپنا دین ایمان اپنی خودی پہچان او غافل افغان اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے دورکے المیے کو بیان کیا تھا کہ کس طرح محکوم قومیں گھٹنے ٹیک رہی ہیں۔مگر افغانیوں نے کبھی بھی غلامی قبول نہیں کی۔ ہمیشہ جد وجہد کی۔ ایک اور جگہ علامہ اقبال نے افغانیوں کو اس طرح خطاب کیا کہ:۔ افغان باقی! کہسار باقی الحکم للہ، الملک للہ 1933ء علامہ اقبال افغانستان بادشاہ محمد نادر شاہ کی دعوت پر وہاں گئے۔ جس نماز کا وقت ہوا تو بادر شاہ نے امامت کے لیے علامہ اقبال کو آگے کیا۔ مگر فلسفی شاعر نے معذرت کی اور تاریخی بات کی کہ میں اس دور کے عادل بادشاہ کی امامت میں نماز پڑھنا اپنا اعزاز سمجھتا ہوں اور نادر شاہ کی امامت میں نماز ادا کی۔ علامہ اقبال نے کابل میں ایک نئی یونیورسٹی کے قیام کا کہا اور کہا کہ ایک تعلیم یافتہ افغانستان ہندوستان کا بہترین دوست ثابت ہو سکتا ہے۔ کابل کی مغربی سرحد پر اسلامیہ کالج کویونیورسٹی میں تبدیل کرنا تیز فہم افغان قبائل اور
ہندوستان کے درمیان آبادی کی بہبود کے لیے انتہائی سود مند ہوگا۔ علامہ اقبال افغانیوں کے جذبہ حریت،دینی جوش و خروش اور اپنی رویات کے امین ہونے پر مبارک بادے دینے کے بعد ان کی کمزروی سے بھی واقف تھا۔ جو مختلف قبائل میں موجود تھیں۔ علامہ اقبال اپنی نظم میں مختلف قبائل کو نصیحت کرتے ہیں۔ کہ وہ مختلف قبائل کی نفرقوں سے آزاد ہو ایک ملت میں گم ہو جائیں۔علامہ اقبال نے قبائل میں بٹے ہوئے افغانیوں کو اس طرح خطاب کیاکہ:۔ یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے کہ امتیاز قبائل تمام تر خواری عزیز انہیں نام ،وزیری و مسحود ابھی یہ خلعت ِافغانیت سے ہیں عاری! ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری وہی حرم ہے ،وہی اعتبار لات و منات خدا نصیب کرے تجھ کو ضرب کاری علامہ اقبال کا پیغام آج بھی افغانیوں کے لیے اسی طرح نافذالعل ہے جس طرح صدی پہلے تھا۔ علامہ اقبال کے پیغام پر عمل کر کے افغان قوم اب بھی اپنا مستقبل شاندار بنا سکتی ہے۔ ایٹمی پاور ،جدید میزائل کی قوت سے لیس، اللہ اور رسولۖ رحمت پر مر مٹنے والے پاکستانی مسلمان اور مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان جو مثل مدینہ ریاست ہے، اور بہادر، حریت پسند اور غیرت مند ملت افغانیہ مل اسلامی نشاة ثانیہ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔