دبئی (اصل میڈیا ڈیسک) خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات میں بین الاقوامی نمائش ’دبئی ایکسپو‘ کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس نمائش کے انعقاد پر آٹھ برسوں کی محنت اور اربوں ڈالر کا خرچ آیا ہے۔
دبئی ایکسپو کا باضابطہ افتتاح یکم اکتوبر بروز جمعے سے ہو گیا ہے۔ اس کی توقع کی جا رہی ہے کہ کئی مہینوں تک جاری رہنے والی رنگ و انواع کی دلچسپیوں کی حامل اس نمائش کو دیکھنے اقوام عالم کے ہزارہا افراد جہاں پہنچیں گے، وہاں اس کے انتظامات اور ہر عمر کے افراد کو لبھانے والی رنگینیوں کی عالمی سطح پر پذیرائی بھی ہو گی۔
یہ نمائش سن 2020 میں عوام الناس کے لیے کھولی جانی تھی لیکن کورونا وبا نے، جس انداز میں دنیا بھر کو متاثر کیا تھا، اس کی لپیٹ میں یہ نمائش بھی آئی اور اسے مؤخر کر دیا گیا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ چھ ماہ تک جاری رہنے والی یہ نمائش حقیقت میں مشرق اور مغرب کا ایک حسین امتزاج بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماضی کی نمائشوں کی طرح دبئی ایکسپو کو کاروباری حضرات کے لیے بزنس کے نئے مواقع تلاش کرنے کا ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم بھی خیال کیا جا رہا ہے۔
دبئی ایکسپو، جس جگہ منعقد کی گئی ہے، وہ چند برسوں قبل ایک کھلا صحرا تھا اور پھر جب اس مقام کا انتخاب نمائش کے لیے کیا گیا تو برسوں کی محنت نے اس لق دق صحرائی علاقے کو روشنی و رنگینی سے سجا دیا ہے۔
نمائش کے لیے اربوں ڈالر سے تیار کیا گیا پیولین ایک ہزار اسی ایکڑ کے صحرائی علاقے پر برسوں کے تعمیراتی سلسلے کا نتیجہ ہے۔ اب صحرا میں قائم نمائش گاہ کے پہلو میں ایک نیا میٹرو اسٹیشن تعمیر کیا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نمائش کے طویل تعمیراتی عمل میں خلیجی ریاست میں پہنچے ہوئے کم مراعات یافتہ غیر ملکی مہاجرین کی شبانہ روز محنت بھی شامل رہی ہے۔ نمائش گاہ میں کئی مقامات پر روبوٹس بھی رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ مقامات کے نام بھی مغربی اصطلاحات پر ہیں، جیسے کہ ‘سسٹینابیلیٹی‘ یا ‘اوپرچونٹی‘ جیسے ہیں۔
نمائش کے منتظمین کے مطابق دبئی ایکسپو میں ایک سو بانوے ممالک کے اسٹالز موجود ہیں۔ ان میں ایک بڑا علاقہ فوڈ کورٹ پر مشتمل ہے۔ اس میں خاص طور پر پہلی مرتبہ وسیع پیمانے پر افریقی براعظم سے لذتِ کام و دہن کو متعارف کرایا گیا ہے۔
فوڈ کورٹ میں تین کورسز پر مشتمل ڈنر کی قیمت پانچ سو ڈالر تک ہے۔ ایسا اندازہ لگایا گیا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادیات میں پیدا گراوٹ کے تناظر میں دبئی ایکسپو کسی حد تک مہنگی خیال کی جائے گی۔
مصر کے قدیمی فراعین دور کی حنوط شدہ نعشوں یا ممیز کو بھی لوگوں کے لیے خصوصی شیشے کے صندوقوں میں رکھا گیا ہے۔ امریکی اسٹال پر خلائی راکٹ فالکن کا نو فٹ بلند نمونہ بھی شائقین کو اپنی جانب راغب کرے گا۔ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی میوزیکل پرفارمنسز بھی روزانہ کی بنیاد پر نمائش کا لازمی حصہ ہیں۔
اس انداز کی عالمی نمائشوں کے سلسلے کی ابتدائی کڑی سن 1851 میں لندن منعقدہ نمائش سے جڑتی ہے۔ ایسی نمائشوں کو اقوام کے درمیان براہ راست رابطہ کاری کے ساتھ ساتھ کاروبار کی افزائش کا ایک ذریعہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
امریکا میں پہلی عالمی نمائش سن 1876 میں فیلاڈیلفیا شہر میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میں ممتاز سائنسدان اور موجد الیگزینڈر گراہم بیل کے ٹیلی فون کے علاوہ ٹائپ رائٹر، مکینیکل کیلکولیٹر کے ساتھ ساتھ ہائنز کمپنی کی ٹماٹو کیچپ کو پہلی مرتبہ متعارف کرایا گیا تھا۔
ایسی ہی بعد میں منعقد کی جانے والی نمائشوں میں شائقین نے پہلی مرتبہ فیرس وہیل جھولے (دائرے میں گھومنے والا اونچا جھولا)، گیس والے سوڈے اور ایلیویٹر (لفٹ) کو دیکھا تھا۔ سن 1939 میں ایسی نمائش نیویارک سٹی میں ہوئی تو وہاں پہلی مرتبہ لوگوں نے ٹیلی وژن کا نظارہ کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد پرنس شیخ زید بن المکتوم نے دبئی ایکسپو کو انسان کی شاندار صلاحیتوں کا آئینہ دار قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نمائش کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید بھی بلاجواز اور عدم حقائق پر مبنی ہے۔