امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان سے بے ہنگم انخلا کے بعد پہلی مرتبہ یورپی لیڈران ایک اجلاس میں جمع ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کو نظرانداز کرتے ہوئے نئے انڈوپیسفک سکیورٹی معاہدے اور امریکا کے یکطرفہ فیصلوں سے بہت کچھ داؤ پر لگ چکا ہے۔ | یورپی یونین کا دو روزہ سربراہی اجلاس گزشتہ روز سے سلووینیا میں جاری تھا۔ یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل کا اس موقع پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ”یہ بہت ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کی ہم کس طرح زیادہ خود انحصار طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔‘‘ یورپی یونین افغانستان سے بے ہنگم انخلا اور کئی دیگر معاملات کی وجہ سے یورپی یونین ایک اپنی خود مختار فوج تیار کرنا چاہتی ہے لیکن فی الحال اس حوالے سے سربراہی اجلاس میں کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو سکا۔
تاہم ستائیس رکنی یورپی بلاک نے امریکا کے نئے انڈوپیسفک سکیورٹی معاہدے کا جائزہ لیا ہے اور یہ کہ اس معاہدے کے بین لاقوامی اثرات کیا مرتب ہو سکتے ہیں؟ یورپی یونین یہ سوچ رہی ہے کہ اس معاہدے کے بعد بین الاقوامی اسٹیج پر اس کا کیا کردار ہو گا؟
تاہم یورپی یونین کے اس سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کی تقسیم واضح تھی۔ مشرقی یورپی ملک روس سے خوفزدہ تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین اور نیٹو اتحاد کے مابین تعاون بڑھایا جائے۔ دوسری جانب جرمنی، اٹلی، اسپین اور فرانس جیسے ممالک تھے، جویورپی یونین کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے حامی ہیں اور ایک مضبوط یورپی یونین چاہتے ہیں۔
گزشتہ روز بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے ڈنر سے پہلے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کا کہنا تھا کہ ستائیس رکنی یورپی یونین کو اپنی سکیورٹی اور سرحدی معاملات سنبھالنے کے لیے زیادہ ذمہ داری اٹھانی ہو گی۔
آج بدھ کے روز یورپی لیڈر بلقان کے چھ ممالک سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا، شمالی مقدونیہ، کوسوو اور البانیہ کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ یورپی یونین کی دہائیوں پر محیط یہ حکمت عملی ہے کہ جنوب مشرقی یورپ سے شمالی افریقہ تک ”دوستوں کا دائرہ‘‘ بنایا جائے۔ انڈو پیسفک معاہدے اور سکیورٹی کے حوالے سے امریکا پر انحصار کے بارے میں جب فرانسیسی صدر سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا، ”ہم یورپی باشندوں کو اپنے بارے میں واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ کہ ہماری سکیورٹی۔ ہماری سرحدوں اور ہماری آزادی کے لیے کیا ضروری ہے؟‘‘
فرانس اور امریکا کے مابین گزشتہ مہینے اس وقت تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے، جب امریکا نے اعلان کیا تھا کہ اس نے برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کر لیا ہے، جو چین کے خلاف ہے۔ اس حوالے سے امریکا نے خفیہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھے اور اس کے بعد آسٹریلیا نے فرانس سے ایٹمی آبدوزیں خریدنے کا ایک معاہدہ ختم کر دیا تھا۔
ایک مضبوط یورپی یونین کے حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بہت سے ایسے اشارے مل چکے ہیں، جن سے یورپ کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ واشنگٹن کی توجہ ‘ایشیا پر مرکوز‘ ہو رہی ہے، برطانیہ نے یورپی یونین چھوڑ دی اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے ‘امریکا سے پہلے‘ کا نعرہ لگایا۔ یورپی یونین کو نہ صرف اپنی سرحدوں کے غیرمحفوظ ہونے کا جہاں احساس ہوا وہاں روس کا رویہ بھی جارحانہ ہوا۔
ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین کے طاقتور ممالک اپنا ایک دفاعی فنڈ قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ مل کر ہتھیار سازی کے ساتھ ساتھ عسکری صلاحیت بڑھائی جا سکے۔