بم حملوں اور داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں نے افغانستان کی صورتحال کو نیا رخ دیدیاہے۔کابل میں یکے بعد دیگرے ہونے والے حملوں اور ملک میں سکیورٹی کی دگرگوں حالات کے تناظر میں داعش طالبان کیلئے ایک مضبوط چیلنج کے طور پر ابھرا ہے۔بلاشبہ افغانستان میں داعش کی موجودگی پورے خطے کے لیے خطرناک ہے ۔گزشتہ دنوں کابل عید گاہ حملے پرطالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد پر داعش کے مشتبہ حملے کے بعد مجاہدین کے سپیشل یونٹ نے داعش کے خلاف آپریشن کیا جس کے نتیجے میں داعش کا ٹھکانہ تباہ اور اس میں موجود داعش کے تمام ارکان مارے گئے ہیں۔واضح رہے کہ دارالحکومت ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ مرحومہ کے لئے دعائیہ تقریب کے دوران ہونے والے حملے میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
تاہم جنوبی ایشیا میں داعش کے ظہور کو 2014ء سے ہی دیکھا جا سکتا ہے عراق اور شام میں فوجی کامیابی کے بعد داعش نے اپنی شاخوں کو مشرق وسطیٰ سے باہر ہم خیال گروہوں سے تعاون بڑھا کر پھیلایا۔جب داعش رہنما ابوبکر البغدادی نے مبینہ طور پر ایک وفد کو بلوچستان اور جنوبی وزیرستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کے جنگجوؤں سے بات چیت کیلئے بھیجا۔ پاکستانی فوج کے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں کچھ عناصر افغانستان کو فرار ہوئے اور انہوں نے افغان صوبے ننگر ہار میں قیام کر لیاتھا۔ کچھ عرصے قبل تک داعش کے نام سے شاید ہی کوئی واقف ہوگا مگر اس تنظیم نے جس مختصر عرصے میں عراق و شام میں فتوحات حاصل کیں اوروہاں سرکاری افواج کو جس طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، وہ حیران کن بات تھی جس کے بعد داعش کا شمار دنیا کی سرفہرست جہادی تنظیموں میں کیا جانے لگا اور آج یہ تنظیم، القاعدہ سے بھی زیادہ طاقتور تصور کی جارہی ہے۔
داعش کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی وفات کے بعد عراق میں القاعدہ کے سربراہ ابوبکر البغدادی جنہیں ابودعا بھی کہا جاتا ہے، نے 2011ئمیں عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اس تنظیم کی بنیاد رکھی اور کسی کی نظروں میں آئے بغیر خاموشی سے ہزاروں القاعدہ اور غیر ملکی جن کا تعلق پاکستان، ازبکستان، ترکمانستان، چیچنیا، یمن اور مصر سے بتایا جاتا ہے، کو تنظیم میں شامل کرکے انہیں عراق اور شام کے محاذ پر بھیجا۔ عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر فتوحات کے بعد داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے مفتوحہ علاقوں کو ”اسلامک اسٹیٹ” قرار دیتے ہوئے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور دنیا بھر کے جہادیوں سے اپیل کی کہ وہ عراق اور شام پہنچ کر خلافت کی تعمیر میں ان کی مدد کریں۔ ابوبکر البغدادی کی جانب سے اسلامی ریاست اور خلافت کے اعلان کے بعد پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک پر مشتمل ایک نقشہ بھی جاری کیا گیا جسے ”اسلامی ریاست” قرار دیا گیا۔۔ داعش میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شمولیت کی اہم وجہ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پرموجود مذہبی اور جہادی مواد ہے جسے پڑھ کر امریکہ، کینیڈا، یورپ اور دیگر ممالک کے نوجوان اس کی جانب راغب ہورہے ہیں۔
داعش کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں یقینا لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لئں تاکہ بھارتی شر انگیزیوں کو لگام دی جا سکے ۔ مذکورہ حالات سے امریکی سازش کی بو آرہی ہے کہ پہلے القاعدہ کے نام پر افغانستان کو نیست و نابود کیا اب داعش کی آڑ میں ایک بار پھر امریکہ بھارت گٹھ جوڑ نیا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے اور جس کے لئے بھارت کو آگے کیا جا رہا ہے ۔ بھارت جو افغانستان میں اپنی بائیس کھرب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ڈوبنے پر حواس باختہ ہے وہ کسی طور بھی اس خطے میں امن نہیں ہونے دے گا ۔۔بھارتی دہشت گردوں نے سابق کٹھ پتلی افغان حکومت کی معاونت سے خطے میں جو وحشت و دہشت کا بازار گرم کیا وہ اب سب پر عیاں ہو چکا ہے ۔پاکستان کے خلاف سٹریٹیجگ سبقت کھونے کے خوف سے بھارت کا طالبان کے اقتدار سنبھالنے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانا اس کی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہی تھا۔
افغانستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سلامتی اور حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے آگے بڑھنے کا بہترین راستہ جامع سیاسی تصفیہ تھا اب 40 سال سے جاری جنگ کو بالآخر ختم کرنے کا یہ ایک نادر موقع ہے لہٰذا یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ بھارت اس نازک موڑ پر منفی باتیں پھیلانے اورشرارتی پراپیگنڈے سے گریز کرے تاکہ خطے میں قیام امن کو یقینی بنا کر افغان عوام کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔عالمی برادری کو اب افغانستان کی تبدیل شدہ صورتحال کی بنیاد پر طالبان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنی پالیسیاں جلد وضع کرنا ہوں گی۔سابق غنی حکومت بھی غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی جسے ختم کرنا معاشی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
طالبان کو بھی ایک ایسے سیاسی ڈھانچے سے متعلق کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے جہاں تمام گروہوں کی نمائندگی ہوکیونکہ اگر حکومت میں تمام گروپوں کو شامل نہ کیا گیا تو جلد یا بدیریہ خطہ عدم استحکام اور شورش کا شکار ہو کر دہشت گردوں کے لئے ایک آئیڈیل مقام بن سکتا ہے جو پریشان کن ہوگا۔ افغانستان میں عدم استحکام کا نقصان صرف پاکستان کو ہی نہیں پہنچے گا بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے ایسے میں اقوام متحدہ کوچاہئے کہ انسانی امداد کے لئے بین الاقوامی مدد کو متحرک کرنے میں زیادہ سے زیادہ مئوثرکردار ادا کیا جائے کیونکہ یہ لمحہ افغان عوام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہونے کا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی جائے پناہ کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہئے ورنہ یہ شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔پاکستان پڑوسی ممالک کو دیکھتے ہوئے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرے گا اس سلسلے میں تمام ہمسایہ ملک ایک دوسرے سے رابطے اور مشاورت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے خطے کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں ۔ عالمی برادری طالبان کو مزید وقت دے کیونکہ اگر افغانستان میں جامع حکومت تشکیل نہ دی گئی تو وہاں خانہ جنگی ہوگی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ واشنگٹن کی شکست افغانستان پر حملہ کرنے والوں کے لئے یقینا ایک سبق ہے۔افغان جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔بیجنگ افغانستان کو ” ون بیلٹ ون روڈ ”منصوبے میں شامل کرکے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اتحادیوں کے ذریعے خطے کے حالات کومزید خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ اقتصادی راہداری ”ون بیلٹ ون روڈ ” منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔