آج کل پینڈورا پیپرز کا بہت چر چا ہے۔پینڈورا بنیادی طور پر یونانی روایات سے اخذ کردہ نام ہے اور اس سے ایک ضرب المثل ‘پینڈورا بکس کھولنا’ انگریزی اور اب اردو میں بھی رائج ہے۔ اس سے مراد کسی ایسی چیز کو سامنے لانا جو کئی لوگوں کے لیے مسائل کا سبب بن سکتی ہو۔امریکی بزنس میگزین فوربس کے مطابق پینڈورا پیپرز میں جن 29 ہزار آف شور کمپنیوں کی تفصیلات دی گئی ہیں ان میں جریدے کی ارب پتی افراد کی جاری کردہ فہرست میں سے شامل 130 افراد کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ پینڈورا پیپرز میں جن سیاست دانوں اور سرکاری عہدے داروں کے نام ہیں ان میں سے نصف سے زائد ‘الکوگل’ کے کلائنٹ ہیں۔واضح رہے کہ ‘الکوگل’ کا ہیڈ کوارٹر پاناما میں ہے جس کے بانیوں میں متعدد سیاست دان شامل ہیں۔ اس کے بانیوں میں سے ایک امریکہ میں پاناما کے سابق سفیر بھی ہیں۔
قبل ازیں جاری ہونے والے پاناما پیپرز کے ڈیٹا کا کل حجم دو اعشاریہ چھ ٹیرا بائٹس تھا۔ یہ ڈیٹا پاناما میں قائم لا فرم موزیک فونسیکا کے لیک ہونے والی معلومات پر مشتمل تھا۔ یہ کمپنی چوں کہ پاناما میں تھی اس لیے منظر عام پر لائی گئی دستاویزات کو ‘پاناما پیپرز’ کا نام دیا گیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک طرف دنیا کے حالات یہ ہیں کہ غذا نہ ملنے کی وجہ سے روزانہ 25,000 لوگوں کی موت ہو جاتی ہے، ان میں 10,000 تو بچے ہوتے ہیں اور دوسری طرف کئی لیڈروں اور امیر لوگوں کے لیے اہمیت کی حامل یہ بات ہوتی ہے کہ وہ خفیہ طور پر اپنی دولت میں اضافہ کیسے کریں اور اس دولت کے سہارے اپنے دائرہ اثر میں اضافہ کیسے کریں۔ پینڈورا پیپرز کے منکشف ہو جانے سے کئی عالمی لیڈروں کی دولت پر سے پردہ ہٹا ہے۔ ابھی تک کی رپورٹ کے مطابق، ان دستاویزات میں 35 موجودہ اور سابق عالمی لیڈروں کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 300 اور عوامی نمائندوں کا بھی ذکر ہے۔
پینڈورا پیپرزسے پتا چلتا ہے کہ ان لیڈروں کی غیر ممالک میں کمپنیاں تھیں۔ ان دستاویزات میں بالواسطہ یا راست طور پر جن لیڈران کا نام آیا ہے، ان میں شاہ عبداللہ، ولادیمیر پوتن، ٹونی بلیئر اوراندریج بابس کے نام بھی ہیں۔ اردن کے شاہ عبداللہ کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان کی امریکہ اور برطانیہ میں 7 کروڑ ڈالر کی خفیہ جائیدادیں ہیں۔ولادیمیر پوتن پر راست الزام عائد نہیں کیا گیا ہے، البتہ رپورٹ یہ آئی ہے کہ ان کی مبینہ سوئٹ ہارٹ کے نام پر10 کروڑ ڈالر کی خفیہ جائیدادیں ہیں۔ جھوٹے بہانے سے عراق پر جنگ تھوپنے میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا ساتھ دینے والے ٹونی بلیئر پر یہ الزام ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ نے لندن میں دفتر خریدتے وقت اسٹیمپ ڈیوٹی کے 3 لاکھ 12 ہزار پاونڈز بچائے تھے۔ دونوں نے آف شور ایک کمپنی خریدی تھی۔ اسی کی ملکیت میں یہ عمارت تھی۔ پینڈورا پیپرزمیں چیک جمہوریہ کے وزیراعظم اندریج بابس کی خفیہ جائیدادوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔
دستاویزات کے مطابق، انہوں نے آف شور انوسٹمنٹ کمپنی کے ذریعے جنوبی فرانس میں ایک کروڑ 20 لاکھ پاؤنڈز مالیت کے دو ولاز خریدے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی ماہ اکتوبر میں 8 اور 9 کو چیک جمہوریہ میں انتخابات ہونے والے ہیں اور اس میں وزیراعظم اندریج بابس نے اپنی یہ خفیہ آف شور انوسٹمنٹ کمپنی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لیڈروں کے اپنی دولت چھپانے کا اصل مقصد کیا ہوتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ لیڈران دولت نہیں چھپائیں گے نہیں تو وہ خود کو عوام کا بہی خواہ کیسے ثابت کر پائیں گے۔ چیک جمہوریہ میں 2020 ء تک خط افلاس سے نیچے 9.5 فیصد لوگ تھے، 15سے 24 سال کے لوگوں میں بے روزگاری کی شرح 8.9 فیصد تھی تو ظاہر سی بات ہے کہ اندریج بابس کو اپنی دولت چھپانی ہی تھی۔ اسی طرح اردن کے شاہ عبداللہ کے اپنی دولت کو خفیہ رکھنے کا معاملہ بھی ناقابل فہم نہیں ہے۔
کورونا وائرس سے پہلے اردن میں خط افلاس کے نیچے رہنے والوں کی تعداد 21.7 فیصد تھی جو گزشتہ ہی سال بڑھ کر 26.2 فیصد ہوگئی تھی۔ ایسی صورت میں شاہ عبداللہ اپنی اصل دولت کے بارے میں اردن کے لوگوں کو بتائیں گے تو وہ کیا سوچیں گے؟ کیا 18.5 فیصد بے روزگار اردنیوں کی نظروں میں ان کی وہی امیج رہے گا جو اب تک رہا ہے؟ ان چند لیڈروں کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس ان ہی لیڈروں کی راست یا بالواسطہ خفیہ جائیدادیں ہیں، باقی لیڈران دودھ کے دھلے ہیں، آنے والے وقت میں اور بھی مہذب لیڈروں کے نام سامنے آجائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے مگر اس کے لیے عام لوگ بھی اپنی ذمہ داریوں سے بچ نہیں سکتے۔ وہ قول سے لیڈروں کو سمجھنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں، عمل سے سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ۔پینڈورا پیپرزلیک ایک کروڑ 19 لاکھ دستاویزات یعنی 2.9 ٹیرا بائٹ ڈیٹا پر مشتمل ہے۔
ان دستاویزات کا جائزہ لیا اور چھان بین کی ہے انٹرنیشنل کنسورٹیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ نے۔ اس میں دنیا بھر کے 650 رپورٹروں نے حصہ لیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پینڈورا پیپرز جیسی دستا ویزات کے سامنے آنے سے حالات میں کچھ تبدیلی آئے گی، کیونکہ گزشتہ ایک دہائی میں فن سین فائلز، دی پیراڈائز پیپرز اور پناما پیپرز جیسے لیک ہونے والے دستاویزات سامنے آئے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حقائق کی تلاش کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انصاف بھی وہی لوگ دلوائیں جو حقائق سامنے لائیں۔ پینڈورا پیپرزے وابستہ لوگوں نے اپنا کام کر دیا ہے اور اب اس سلسلے میں جو لوگ یا ادارے بہتر رول ادا کر سکتے ہیں، انہیں اپنا رول ادا کرنا چاہیے تاکہ پسماندہ ملک کے حکمراں کی دولت بھوک سے مرنے والوں کا منھ نہ چڑھائے۔