کرسٹینا لیمپ لندن کے اخبار سنڈے ٹیلی گراف میں ملازم تھی۔ وہ دو دفعہ افغانستان میں داخل ہوئیں۔ پہلی بار جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور دوسری بار جب امریکی نے اپنی 48 نیٹو اتحادی صلیبی فوجوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا۔ دونوں دوروں کے مقاصد علیحدہ علیحدہ تھے۔ روس کی جارحیت میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 17 لاکھ جانوں کی قربانی دی ،20 لاکھ زخمی یا معذور، اور 45 لاکھ افرادمہاجرت کا صدمہ برداشست کیا۔افغانیوں نے صبر کیا اور روس شکست فاش سے دو چار ہوا۔
روس تو مغرب کا مخالف تھا ،تو کرسٹینا کی رپورٹنگ متعصبانہ نہیں تھی۔ مگر جب امریکا نے نائین الیون کے خود ساختہ حملے کے بعد اسامہ بن لادن پر الزام لگا کر ملا عمر سے اس کی حوالگی کامطالبہ کیا اور ملا عمر نے اپنے اسلاف کی سنت پر عمل کرتے ہوئے وقت کے متکبر شیاطین امریکا کو صاف صاف جواب دیا کہ مسلمان مہمانوں کے ساتھ دشمنوں والا سلوک نہیںکرتے،آپ ثبوت دیں ہم خود اسامہ بن لادن پر مقدمہ قائم کریں گے۔مگر امریکا نے کوئی ثبوت نہ دیا اور ایک متکبر کی طرح امریکا نے افغانستان پر آگ برسانا شروع کی۔جدیدمیزائیلز،کارپیٹڈ بمباری، دنیا کا سب سے بڑا بم پرسایا،افغانستان کو تورا بورا بنا دیا۔ کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔
بیس سال تک دنیا کی طویل جنگ جاری رکھی۔ پھر طالبان نے اکیلے جہاد کی بر کت سے امریکا اور اس کے 48 صلیبی نیٹو اتحادیوں کو شکست دے کردنیا کو حیرت میں ڈالا۔ امریکا دوحہ معاہدے کے تحت ذلیل ہو کر افغانستان سے نکلا اور طالبان نے پھر سے امارت اسلامیہ افغانستان قائم کر دی۔طالبان کے دور کی کرسٹینالیمپ نے ساری رپورٹنگ افغان مسلمانوں کے مخالفت میں کی۔ اسے اسلام سے دشمنی ہے۔ اس نے ہی مغرب کی ڈمی ملالہ پر کتاب ” آئی ایم ملالہ” بھی لکھی۔ اس کے لیے اسے لندن میں قیام پذیر قادیانیوں کے چیف سے بھی ہدایات لینی پڑھیں۔
کرسٹینا جانبدارانہ رپورٹنگ اس کی کتاب” طالبان کا افغانستان” میں جا بجا درج ہیں،اس کوپاکستان اور افغانستان کے مغرب زدہ مقامی صحافیوں اور سیاستدانوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔اس نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر بھی کیا، مثلاً پاکستان کے صحافی نصرت جاوید، سیاست دان حسین حقانی اور افغانستان کے حامدکرزئی اور طالبان مخالف سیاستدان وغیرہ۔صرف ایک بات صحیح لکھی کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان بنتارہاہے۔لکھتی ہیں کہ افغانستان ہمیشہ ایک قدرتی گزرگاہ رہا ہے۔ جو مشور وسطی،وسطی ایشیا، برصغیر ہند، اور مشرق بعید کا سگھم ہے اور اسی وجہ سے بڑی طاقتوں کے باہمہ ٹکرائو کی سرزمین اور ان کے لیے آخری آرام گاہ یعنی قبرستان بن جاتا رہا ہے۔افغان عوام ،مارکوپولو، چنگیز خان، سکندر اعظم، تیمورلنگ، مغلوں، سکھوں اور ایرانی حکمرانوں کی داستانیں یوں سناتے ہیں جیسے وہ ابھی ابھی جہاں سے گزرے ہوں۔
لکھتی ہیں کہ طالبان کو آئی ایس آئی نے بے نظیر دور میں بنایا تھا۔ بے نظیرکے وزیر داخلہ نصیر اللہ خان بابرنے بر ملا کہا تھا کہ طالبان ہمارے بچے ہیں۔طالبان مخالف لوگوں کے انٹرویو لیے جو کچھ اس طرح ہیں۔ سردار ولی جان کا بیان کوٹ کرتی ہیں کہ اسے ملا عمر نے کہا تھا کہ” ہم کرسیاں کے طلب گار نہیں ہیں یہ تو قبائلی سردادروں کو مبارک ہو۔ہم صرف اپنے آدمیوں کے لیے خوراک چاہتے ہیں۔پھرملا عمر نے قندھار فتح کیا، ہرات پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ فکر نہ کرو ہم صرف زکوٰة چاہتے ہیں ٹیکس کی ہمیں ضرورت نہیں۔لیکن طالبان نے ہم سے دھوکا کیا۔ کرسیاں بھی لے لیں،زکوٰة بھی لی اورٹیکس بھی لیتے ہیں اور مذید بھی مانگتے ہیں”ملاحسنی کے مطابق” ہمیں فوٹو بوتھس،وڈیو شاپس بھی بند کر دینا پڑیں۔ کوئی بھی میوزک فروخت نہیں کر سکتا تھا۔ ماسوائے طالبان کے پسندیدہ ٹاپ ٹین کے۔ ہر گانا ممنوع قرار پاگیا تھا۔ اس کاپسندیدہ ترین گائیک سراجی نامی شخص تھاجو رزمزیہ نظمیں گاتا اور لوگوں کو جہاد پر اکساتا۔ اس کا ایک گانا یہ تھا
” مکان ہمارا شیروں اور چیتوں کا بسیرا ہے حملہ کرے گا جو،ہم پر،دانت اپنے تڑوائے گا محافظ ہیں ہم اس ملک عظیم کے”
مزید کہ ہر چیز پر پابندی ہے ۔ملک میں واحد تفریع سر عام پھانسیاں ہیں۔اسلام کے فرائض اور سنتوںاور اسلام کے شعار کی لمبی لسٹ لکھی ،کہ ان ان پر پابندیاں تھیں۔لکھتی ہیں کہ ہزار ہ شیعہ کے بچے یہ سمجھتے ہوئے جوانی میں داخل ہوتے ہیں کہ انہیں پشتون حکمرانوں کی طرف سے ہر سختی کی توقع کرنی چاہیے۔ احمد شاہ مسعود اور طالبان نے ان پر مظالم کے
پہاڑ توڑے۔ راقم ،شاید اسی کتاب سے متاثر ہو کر پاکستان میں بھی امریکا نے شعیہ سنی فسادات کرانے کے لیے ہزارہ نسل پر ظلم کیا۔جبکہ پاکستان میں ہزارہ نسل کا شیعہ جنرل موسیٰ آرمی چیف گزرا ہے۔لکھتی ہیں کہ ہزارہ لوگوں کو شپنگ کینٹنروں میں بند کیا گیاجو دم گھٹنے سے مر گئے۔راقم ،یہ بھی دروغ گوئی ہے یہ کہ کام تو شمال کے جنرل دوستم نے طالبان کے ساتھ کیا تھا۔جمیل کرزئی اور ایک سابق شہزادی” مری” نامی لڑکی کے طویل خطوظ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ جس میں طالبان پر الزام ہے کہ مغربی طرز کی آزاد زندگی کو ہم عورتوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ہم بہت کھٹن میں رہ رہی ہیں۔کرسٹینا جہا د کے ہیرو جنرل حمید کے لیے بھی برے الفاظ استعمال کیے۔ حکمت یار جس نے امریکا صدر ریگن سے ملنے سے انکار کر دیا تھا اس پر بھی الزام لگاتی ہیں۔
وہ حامد کرزئی سے خوش ہے جو مغربی طرز کی زندگی کو پسند کرتا ہے۔وہ ظاہر شاہ،سرداردائود،ببرک کارمل حفیظ اللہ امین کا بھی ذکر کرتی ہیں۔ وہ طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم بند کرنے کو زور شور اور مبالغہ آمیزی سے بیان کرتی ہیں کہ اس کی مغرب کو ضرورت ہے اور اس طرح اس کا اخبار بھی خوش ہوتا ہے۔ایک انقلابی شاعر ناصر خفاش کا بھی ذکر کرتیں ہیں ۔ جو طالبان کے دور کی برائیوں اپنی شاعری میں بیان کرتا ہے۔دوستم اور اسماعیل خان کی طالبان کے خلاف کاروائیوں کومرچ مسالہ لگا کر بیان کیا۔مغل بادشاہ بابر اور احمد شاہ دروانی اور تیمورشاہ کا بھی ذکر کیا۔لکھتی ہے کہ اگرچہ امریکی حملے کے بعد ملا عمر پہاڑوں میں فرار ہو گیا تھا لیکن امر بلمعروف و نہی المنکر کا ہیڈ کواٹر اب بھی بڑی سڑک کے کنارے موجود ہے جس پر امریکیوں نے بمباری بھی کی۔ راقم ،یہ ادارہ مسلمانوں حکومتوں میں برائیوں سے روکنے اور اچھائیوں میں تعاون کے لیے بنایا جاتا ہے۔
لکھتی ہیں کہ ملا عمر کے دور کی بہت سے یاگاریں اب بھی قندھار شہر میں کوموجود ہیں۔ اس شہر میں ایک نامکمل مسجد موجود ہے جس کانام ملا عمر کے نام” عمری مسجد” رکھا گیا ہے۔مبالغہ کرتے ہوئے ملا عمر کے شاہراہ نو پر نیو ٹائون میں گھر کو محل نما بیان کرتی ہیں۔ ایک لڑکے ندا محمد سے معلوم کرتی ہیں کہ تم نے پھانسی لگتے کسی کو دیکھا ہے ۔ اس لڑکے کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ طالبان دو روز قبل ریڈیو پر اعلان کر دیتے تھے کہ فلان ابن فلاں فلاں ابن فلاں کو قتل کیا لہیٰذا اس کو منگل کو دو بجے سہ پھر بھانسی دی جائے گی۔یہ پھانسیاں ہزاروں لوگ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔لکھتی ہیں بھیڑ کی طرح قاتل کے ہاتھ پائوں باندھ کر اس کو ایک تختہ پر لٹا دیا جاتا ہے اور ایک لمبے چاقو سے گلا کاٹ دیا جاتا ہے۔(مترجم، شریعت میں یہ سزا نہیں سر قلم کیا جا سکتا ہے) عورتوں کو گول پوسٹ سے باندھ کر گولی ماری جاتی تھی۔اگر عورت نے بدکاری کی ہو تو اسے سنگسار کر دیا جاتا تھا۔لکھتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں دیکھا کہ کہ چند ہم جنس پرستوں کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان اوپر دیوار گردی گئی۔ یہ طریقہ دلچسب تھا۔وہ لڑکا واقعات ایسے بیان کر رہا ت تھا کہ جیسے ٹی وی پر کمنٹری کی جاتی ہے۔یہ ایک ہیرو ”عبداللہ” کی پھانسی کا ذکر بھی کرتا ہے جس کو حکمت یار کے لوگوں نے پھانسی دی تھی ۔ ساری گفتگو میں افغان قبائل نے فلاں قبیلے کے بندے کو دشمنی کی وجہ سے قتل کیا یا پھانسی پر چڑھایا ہی کی باتیں لکھتی ہیں۔
صاحبو!روس کی شکست کے بعد امریکا نے افغانستان میں جہادی پارٹیوں کو آپس میں لڑایا تھا۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ پٹھان حضرات دشمن کو شکست دیتے ہیں پھر مال غنیمت پر آپس میں لڑائی کرتے ہیں۔بہرحال کرسٹینا نے بھی افغانوں کی کمزوریوں کو خوب اچھالا۔ طالبان کے دور میں جب امن امان قائم ہوا تھا۔ طالبان نے وار لارڈز سے اسلحہ واپس لیا ۔ افغانیوں ننے اپنے دور حکومت میں کسی بھی غیر ملک میں دہشت گردی نہیں کی۔ پاکستان کے ساتھ سرحد پر دہشت گردی ختم کی ۔ اسلامی سزائوں کے نفاذ سے جرائم ختم ہونے کے قریب پہنچے اور کرسٹینا نے اس کو وحشیانہ لکھا۔ پوسٹ کی کاشت ختم کر دی گئی تھی۔ اس اچھے اقدام کو بھی صحیح طرح بیان نہیں کیا۔ ہاں، امریکا اور مغرب جو48نیٹو اتحادی فوجیوں کے ساتھ افغان حکومت ختم کرنے چڑھ دوڑے تھے ان کی پسند کے باتیں اس کتاب ”طالبان کا افغانستان”میں خوب بیان کی گئی۔ یہ بات لکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ وہ ایک مغربی عورت ہونے کے باوجود افغانستان کے کونے کونے میں گئی، مورچوں میں گئی، عورتوں سے انٹر ویو بھی کئے، طالبان مخالف لوگوں سے باتیں سن کر طالبان کے ہی خلاف رپورٹنگ بھی کی۔ مگر پھر بھی طالبان نے اس کو آزادی سے پورے افغانستان میںگھومنے پھرنے دیا اس سے بڑھ کر اور کیا آزادی ہو سکتی ہے؟ ایک سعید روح ”یو آنے رڈلے” لندن کی صحافی جو پاک دامن خاتون تھی، جو افغانستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئی طالبان کی قید میں رہی اور اس دوران طالبان کے اچھے اسلامی رویہ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئی۔ اور ایک یہ بد روح خاتون” کرسٹینا لیمپ” لندن کی صحافی ہیں اس نے اپنے نسوانی عزت کا کبھی بھیپاس نہیں رکھا، بس خبر حاصل کرنے کے ہر فعل سے گذر گئی۔ اور مغرب کی ضرورت کی خبریں توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے میں مشہور ہوئی۔