امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے افغان عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس نے واضح کیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو با ضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ ان کی بات چیت اچھی رہی ہے۔
امریکا نے کہا کہ اس نے اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پہلی بار اس گروپ سے10 اکتوبر کو روبرو بات چیت کی ہے۔ اس بات چیت کے اختتام پر امریکی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایک امریکی وفد نے طالبان سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت کی ہے جس میں سکیورٹی اور دہشت گردی جیسے امور پر خاص توجہ دی گئی۔
اس بات چیت میں امریکی وفد نے اپنے شہریوں، دیگر غیر ملکی شہریوں اور وہ افغان جو جنگ زدہ ملک چھوڑ کر باہر جانا چاہتے ہیں جیسے مختلف امور پر خاص بات چیت کی جبکہ افغان معاشرے کے مختلف شعبوں میں خواتین کی شرکت کے لیے محفوظ راستہ قائم کرنے پر بھی زور دیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق، ”بات چیت بہت ہی شفاف اور پیشہ ورانہ تھی، جس میں امریکی وفد نے اس بات کا اعادہ کیا کہ طالبان سے متعلق کوئی بھی فیصلہ ان کے الفاظ کے بجائے ان کے افعال کی بنیاد پر کیا جائے گا۔”
واشنگٹن کا کہنا ہے کا فریقین نے، ” امریکا کی جانب سے براہ راست افغان عوام کو مضبوط انسانی امداد کی فراہمی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔” لیکن اس امداد کی فراہمی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امریکا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات طالبان کے ساتھ ”عملی مشاورت” کے تسلسل کا حصہ ہے اور یہ، ”گروپ کو تسلیم کرنے یا اسے قانونی حیثیت دینے کے بارے میں قطعی نہیں ہے۔” دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا سے ان کی بات چیت اچھی رہی۔
طالبان گروپ کے ایک ترجمان سہیل شاہین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ طالبان حکومت کے عبوری وزیر خارجہ نے امریکی نمائندوں کو بتایا کہ طالبان اپنی اس بات پر اب بھی قائم ہیں کہ وہ اپنی سر زمین کسی دوسرے ملکوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
افغانستان میں حالیہ دنوں میں کئی بم دھماکوں سمیت متعدد حملے ہوئے ہیں اور ان سب کی ذمہ داری طالبان مخالف شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی ہے۔ امریکا کا خیال ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے فی الوقت سب سے بڑا خطرہ داعش سے ہے۔
افغانستان میں گزشتہ اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد سے ہی عوام کو شدید قسم کی غربت کا سامنا ہے۔ ایک طرف امریکا جیسے ممالک نے جہاں ان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں تو دوسری طرف ملک کو زبردست معاشی اور انسانی امداد کے بحران کا سامنا ہے۔
طالبان کے قبضے کے بعد ہی امریکا نے اپنی وفاقی بینکوں میں موجود نو ارب سے زیادہ کے افغانستان کے اثاثے روک دیے تھے، جس سے ملک میں نقدی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ وہ درجنوں امریکی شہریوں اور امریکا میں مستقل رہائش کا حق رکھنے والے افغانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو ابھی تک افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے مطابق امریکا ان ہزاروں افغانی، جنہوں نے امریکی فوجی کارروائیوں میں مدد کی تھی ان سے بھی رابطے میں ہے۔