پاکستان کو اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بنانے والا ممتاز جوہری سائنسدان داکٹر عبدالقدیر خان 85 برس کی عمر میں رب کے حضور پیش ہوگئے۔ وہ طویل عرصہ سے علیل تھے۔ پھیپڑوں میں تکلیف کے باعث انہیں اتوار کو صبح ٦ بجے آر ایل ہسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں ان کی طبعیت خراب ہو گئی، ڈاکٹروں نے ایٹمی سائنس دان کو بچانے کی کوشش کی، تاہم صبح ٧ بجے کر ٤منٹ پر خالق حقیققی سے جا ملے۔ 26 اگست 2021ء کو کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ بعد حالت اچانک بگر گئی اور انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریاسپتال میں داخل کیا گیا تھا تاہم کچھ روز بعد کرونا ٹیسٹ منفی آیا اور طبیعت سنبھلنے لگی تھی۔ انہیں واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔11 ستمبر کو میڈیا کو بتایا گیا کہ وہ صحت یاب ہو گئے ہیں۔ اس کی خواہش کے مطابق ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔ پاکستان پرچم میں لپٹی میت فیصل مسجد کے احاطے میں لائی گئی۔ جہاں پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی کی امامت میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ایح ایٹ کے قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
ڈاکٹر قدیر خان محسن ِ ملت ہیں۔ پاکستان کہ جس نے امت مسلمہ کہ کی قیادت کرنی ہے۔ امت مسلمہ نے برصغیر کی بت پرست طاقت ،جو پاکستان کے دس ٹکڑے کرکے اکھنڈ بھارت میں ضم کرنے کا ڈاکٹرائین رکھتی ہے، بھارت کے خلاف ابھی غزوہ ہند ہونا ہے۔ڈاکٹر قدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا کر اللہ کے ہاں ایک مقام حاصل کیا ہے۔ اے کاش کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم اس کے نماز جنازہ مین شرکت کر کے اس خراج تحسین پیش کر تے اور عوام کے دلوں میں بسنے والے ڈاکٹر قدیر خان کی روح کو تسکیں ہوتی، مگر اللہ کے بجائے امریکا سے خوف کھانے والے حکمران ایسانہیں کر سکا۔ اس سے پہلے ملک کے دشمن ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ڈاکٹر قدیر خان کو مجرم بنا کر ٹی وی پر پیش کیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے قوم کو بتایا تھا کہ مجھ پر دبائو ڈال کر ایسا بیان دلوایا گیا تھا۔ آج ڈکٹیٹر پرویز مشرف اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ملک سے باہربگھوڑوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور ڈاکٹر قدیر خان لوگوں کے دلوں میں بستا تھا۔ان دنیا میں ہی ڈکٹیٹر مشرف کا اپنے کیے کا بدلہ مل گیا۔ نواز شریف نے بھی ڈاکٹر قدیر خان کو وہ اعزاز نہیں دے سکا جس کا وہ مستحق تھا۔ وہ بھی مکافات عمل سے گزر رہا ہے۔
ہمارے پڑوس میں بھارت نے اپنے ایک مسلمان ایٹمی سائنس دان کی قدر کرتے ہوئے اُسے بھارت کا صدر بنایا۔ مگر نواز شریف کو اللہ نے اس کام کو کرنے کی توفیق ہی نہیں بخشی تھی ۔ بلکہ وہ بھی امریکا کے خوف سے ایسا نہ کر سکا۔ جب ایٹمی دھاکہ کرنے میں سستی دکھائی تو نوائے وقت کے مجید نظامی نے کہا تھا کہ نواز شریف اگر تم ایٹمی دھماکہ نہیں کرو گے تو لوگ تمھارا ایٹمی دھماکا کر دیں گے۔ اس طرح قاضی حسین احمد اور اسلامی سوچ رکھنے والے حلقوں نے بھی نواز شریف پر سخت دبائو ڈالا تھا جس کی وجہ نے نوزا شریف نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ ڈاکٹرقدیر خان نے دوران علالت شکوہ کیا تھا کہ وزیر اعظم سمیت کسی کو میری یاد تک نہیںآئی۔سندھ کے وزیر اعلی کوایک خط کے ذریعے یاد کرنے کا شکریہ ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر کے اہل خانہ نے بیان دیا کہ پوری قوم ہمیشہ ایٹمی سائنس دان کو یاد رکھے گی۔
ڈاکٹر قدیر خان نے آٹھ سال کی قلیل مدت میں ایٹمی پلانٹ لگا کر دنیا کو حیرت میں ڈالا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے 150 سے زاہد سائنسی تحقیقی مضمامین لکھے۔یکم اپریل 1936ء کو بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔پاکستان بننے پر خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے۔1960ء میں کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی۔پھر یورپ مذید تعلیم حاصل کرنے گئے۔ جرمنی اور ہالینڈ سے تعلیم حاصل کی۔ بیلجیم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کی۔ 15 سال یورپ میں رہنے کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر 1976ء میں پاکستان آئے۔ 31 مئی 1976ء میں انجیئرنگ ریسرچ لیبارٹری میں شمولیت اختیار کی۔ یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیا الحق نے اس کا نام ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری رکھ تھا۔اس لیبارٹری نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کے لیے ایک ہزار دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ صدر پاکستان فاروق لغاری نے 14 اگست 1996ء میں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا۔ صدر وزیر اعظم آرمی چیف نے ڈاکٹر قدیر کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا۔ محسن ملت کو چیف آف آرمی اسٹاف کمیٹی کے جنرل ندیم رضا سلامی پیش کی۔ اس سے پہلے فوج اور پولیس نے شاندار گارڈ آف آئنر پیش کیا گیا۔تینوں فوجوں کی طرف سے پھول چڑھائے گئے۔شدید بارش کے باوجود لاکھوں شہریوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ رش کی وجہ سے کافی
لوگ نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رہے۔مولانا فضل ارحمان نے کہا کہ قوم عظیم سائنسدان سے محروم ہو گئی ۔ڈاکٹر ثمر مبارک نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر چاہتے تھے کہ پاکستان مسلم دنیا کو لیڈ کرے۔اے کیو خان کو امت مسلمہ کی فکر تھی۔بیلجیم سے ایٹمی ٹیکنائوجی لے کر آئے ان کے ساتھ کام کرنے پر مجھے فخر ہے۔ڈاکٹر قدیر خان ایک اچھے انسان تھے۔ تکالیف کو بہت زیادہ محسوس کرتے تھے۔جماعت اسلامی نے ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستان اور اسلامی ملکوں میں اُجاگر کرنے کی کوشش کی تھی ۔ یہ صحیح بات ہے کہ جماعت اسلامی نے ہر اس شخص کی حمایت کہ جس نے پاکستان کو مضبوط کرنے کے اقدامات کیے۔ اب بھی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان اللہ کے ولی تھے۔ حکومت نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ پورے ملک میں جماعت اسلامی ڈاکٹر قدیر خان کے غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا۔ سربراہ حزب المجائدین سید صلاح الدین نے کہاکہ ڈاکٹر قدیر خان نے اللہ پر توکل کر کے ہر آزمائش کا مقابلہ کیا۔ملک کی 13 دینی جماعتوں نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان ،محسن پاکستان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔
داکٹر قدیر خان کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔ڈاکٹر قدیر خان نے دنیا میں ملک وقوم کا نام روشن کیا۔کشمیر کی مشال ملک نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان وطن عزیز کا عظیم سرمایا تھا۔تینوں سروسز چیف ،نواز شریف،شیخ رشید، فوادچوھدری ،اسد عمر، شہباز گل نے وفات پر دکھ کا اظہار کیا۔مریم صفدر نے کہا کہ ملک ی دفاع مضبوط بنانے میں ڈاکٹر قدیر کی بڑی خدمات ہیں۔محسن پاکستان کی وفات پر بہت افسوس ہوا۔اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔صدر نون لیگ اور لیڈر آف اپوزیش شہباز شریف نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر کی کہانی پاکستان سے محبت کی کہانی ہے۔اسلام اور پاکستان ان کے مطمع نظر رہے۔ ان کی زندگی ملک کو ناقابل تسخیر بنانے میں صرف ہوئی۔ دل و جان سے ملک کی خدمت کی۔ قوم سچے محسن سے محروم ہو گئی۔ ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔ ملک کے پرنٹ میڈیا نے محسن ملت کو شاندار طریقے سے خراج تحسن پیش کیا۔ موت کی خبر سنتے ہیں ہی لاکھوں لوگ فیصل مسجد کے طرف پیدل، موٹر سائیکلوں، بسوں اور پرائیویٹ گاڑیوں میں اُمڈ آئے۔ہر آنکھ اشک بار تھی۔ اللہ محسن ملت کو جنت فردوس میں جگہ دے آمین