اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر ٹیکسٹائل پالیسی کی منظوری نہ دی جا سکی۔
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ( ای سی سی ) کا اجلاس گزشتہ روز ( پیر ) وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین کی زیرقیادت ہوا۔ اجلاس میں ٹیکسٹائل پالیسی پر غو رخوض کیا گیا تاہم پالیسی کی منظوری کا فیصلہ موخر کرتے ہوئے ایک ذیلی کمیٹی قائم کرکے اسے معاملے کا جائزہ لینے اور اپ ڈیٹڈ پالیسی پیش کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا۔
ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ پانچواں موقع تھا جب حکومت ٹیکسٹائل پالیسی کی منظوری دینے میں ناکام رہی۔ اس کی وجہ گیس اور بجلی پر سبسڈی کے حجم پر عدم اتفاق تھا۔ ٹیکسٹائل پالیسی کے جائزے کے لیے بنائی گئی ذیلی کمیٹی میں وزارت تجارت، فنانس ڈویژن، وزارت صنعت و پیداوار، پاور اور پٹرولیم ڈویژن، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے نمائندے شامل ہوں گے۔ وزارت تجارت نے تجویز دی تھی کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی اور گیس ’علاقائی مسابقی نرخ‘ پر فراہم کی جائے۔
ذرائع کے مطابق اراکین کمیٹی کروڈ آئل اور ایل این جی کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر بجلی اور گیس دونوں کی علاقائی مسابقتی نرخوں پر فراہمی دانشمندی نہیں ہوگی۔
وزیرتوانائی حماد اظہر نے گیس کی قلت اور بجلی و گیس اصل سے کم قیمت پر فراہم میں حائل مالی مشکلات کا ایشو اٹھایا۔ علاوہ ازیں برآمدات کے نام پر تمام صنعتوں کو بجلی و گیس کی فراہمی کا ایشو بھی سامنے آیا۔
کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی کے گزشتہ اجلاس میں شوکت ترین نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ تمام کیپٹیو پاور پلانٹس کے کنکشن فوری طور پر منقطع کردیے جائیں کیوں کہ یہ صنعتیں اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھ اکہ صرف برآمدکنندگان کو بجلی و گیس رعایتی نرخ پر دی جائے۔
ای سی سی کے اجلاس کے دوران وزیرخزانہ نے رواں مالی سال کے لیے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے برآمدات کے 20ارب ڈالر اور آئندہ مالی سال کے لیے 25 ارب ڈالر کے مجوزہ ہدف پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو دی جانے والی مالیاتی رعایتیں مجوزہ برآمداتی اہداف سے مطابقت نہیں رکھتیں۔