دوحہ (اصل میڈیا ڈیسک) قطر میں منگل 12 اکتوبر کو یورپی یونین کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان ہونے والی ملاقات سے قبل جرمن حکام نے طالبان سے بات کی تھی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ مثبت رشتوں کے خواہاں ہیں۔
طالبان کی قیادت 12 اکتوبر منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقات کرنے والی ہے۔ طالبان حکومت میں کارگزار وزیر خارجہ عامر خان متقی نے گزشتہ روز کہا تھا، ” کل ہم یورپی یونین کے نمائندوں سے مل رہے ہیں، ہم دوسرے ممالک کے نمائندوں کے ساتھ بھی مثبت ملاقاتیں کر رہے ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم پوری دنیا کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم متوازن بین الاقوامی تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ اس طرح کے متوازن تعلقات افغانستان کو عدم استحکام سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔”
ادھر یورپی یونین کی ترجمان نبیلہ مسرعلی نے اس ملاقات کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ بات چیت، ”تکنیکی سطح پر ایک غیر رسمی تبادلہ خیال ہے۔ بات چیت کا مطلب طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملاقات کے دوران انسانی امداد کی فراہمی اور خواتین کے حقوق سمیت کئی دیگر اہم امور بات چیت ہو گی۔
اطلاعات کے مطابق یورپی یونین کے نمائندوں سے ہونے والی اس بات چیت میں امریکی سفیر کے بھی موجود ہونے کی توقع ہے۔
یورپی یونین کے نمائندوں سے ہونے والی اس بات چیت سے ایک روز قبل یعنی 11 اکتوبر پیر کو دوحہ میں ہی جرمن وفد نے طالبان سے ملاقات کی تھی۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے یہ جرمنی اور طالبان میں پہلی گفت و شنید تھی۔
اس میٹنگ میں جو جرمن حکام موجود تھے اس میں افغانستان اور پاکستان کے لیے جرمنی کے خصوصی سفیر جسپیر ویک اور مارکس پوزیل بھی
شامل تھے۔ ملاقات کے بعد، جرمن وفد نے کہا کہ طالبان حکومت ایک ”حقیقت” ہے۔ امریکا اور نیٹو کے اتحادیوں نے بیس برس بعد افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لی تھیں اور اسی دوران طالبان نے 15 اگست کو افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔
دوحہ میں اس ملاقات کے حوالے سے جرمن دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ وفد نے، ”جرمن اور افغان شہریوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی جس کی جرمنی پر ایک خاص ذمہ داری ہے۔” اس کے ساتھ ہی بات چیت میں، ”انسانی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کے احترام” اور سیکورٹی سے متعلق امور توجہ دی گئی۔
اطلاعات کے مطابق طالبان نے بھی میٹنگ کے دوران جرمن حکام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں بیرونی سفارت کاروں اور انسانی امداد فراہم کرنے والے اداروں کے تحفظ کے تئیں پر عزم ہیں۔
طالبان کے ایک ترجمان نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ جرمنی کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات چاہتے ہیں۔ اتوار کے روز ہی امریکا نے بھی پہلی بار دوحہ میں طالبان قیادت سے بات چیت کی تھی اور اس کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ افغان عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کو تیار ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کر رہا ہے۔
طالبان عالمی طاقتوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہیں دوسری طرف اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا ہے کہ افغانستان شدید معاشی بحران سے دوچار ہے اور اگر فوری طور پر امداد فراہم نہ کی گئی تو حالات بد تر ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے حال ہی میں بین الاقوامی برادری سے اپیل کی تھی کہ وہ فوری طور پر اقدام کرتے ہوئے افغانستان کو نقدی فراہم کریں تاکہ کسی طرح وہاں معمول کی زندگی بحال ہو سکے۔ طالبان کے قبضے کے بعد سے ہی افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد ہیں اور پیسوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
تاہم سکریٹری جنرل نے اپنے بیان میں وعدہ وفا نہ کرنے کے لیے طالبان پر بھی شدید نکتہ چینی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ”میں طالبان سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ خواتین اور لڑکیوں سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔”
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو مساوی حقوق دیے اور ان کی شمولیت کے بغیر افغان کی معیشت کی بحالی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔