ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
وطن عزیز پاکستان کے ایٹمی سائنسدان اور پاکستان کے نیو کلیائی پروگرام کے بانی ،محسن اانسانیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا خلاء کبھی پور انہیں ہو سکتا۔ وطن عزیز پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا کر مسلم امہ کو مضبوط کیا۔دل خون کے آنسو رو رہا ہے مگر میں کوئی منفی ردعمل پیش نہیں کروں گا جس سے مزیذ کوئی نفرت جنم لے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے مسلمان سائنسدان صدیوں بعد پیداہو تے ہیںجو عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر صرف ایک نظریہ لے کر آئے کہ پورے عالم میں مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے جس کا پاکستان اور عوام تا قیامت مقروض رہیں گے۔ پاکستان کے وجود کو مضبوط کرنے والا آج اس جہان فانی سے رخصت ہو رہا ہے۔ان کی وفات ملک و قوم اور ان کے اہلخانہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بے لوث پاکستان سے محبت تھی کے عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر پاکستان آئے اور پاکستان کے لیے وہ خدمات سرانجام دی جس کا پاکستان اور عوام تاقیامت مقروض رہیں گے۔
حکومت وقت کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد اس عظیم ہیرو کی یاد میں کسی ائرپورٹ ، موٹروے ، ہسپتال یا کوئی فلاحی ادارے کو ان کے نام سے منسوب کرنا چاہیے، طلباء کے نصاب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے اسباق ہونے چاہیے کہ کن حالات اور انتھک محنت سے انہوں نے بغیر کسی لالچ و عہدے کے وطن عزیز کو عالم دنیا میں ایٹمی قوت بنا کر متعارف کروایا۔ تاکہ کل آنے والی نسلیں بھی اس عظیم ہیرو کو یاد رکھ کر ان کے نقشے قدم پر چل سکیں۔زندہ اقوام جب اپنا کوئی قومی دن مناتی ہیں تو وہ اپنے ہیرو ز اور محسنوں کو یادکرتی ہیں ان کے کئے ہوئے عمل کو اپنے ہر پلیٹ فارم پر دہراتی ہیں ان کی کہی ہوئی باتوں کو اپنے لیے مشعل راہ بناتی ہیں۔
جب ہم اپنے ہیرو زکا ذکر کرتے ہیں تو دراصل انہیں متعارف نہیں کروا رہے ہوتے بلکہ اپنا چھوٹا قد بڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہوئے ہیں ہیروز اپنے کام سے بنتے ہیں بڑا ہیرو وہ ہوتا ہے جس کا کام عام آدمی کے ساتھ جڑا ہوا ہو اور لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہوں یہ بڑے بڑے کام سر انجام دینے والی قوموں اور ملکوں کی پہچان ہوتے ہیں۔ یہ اندھیروں میں چھپی قوموں کے چہروں کو رخ مہتاب بنا دیتے ہیں۔وطن عزیز پاکستان نے بہت ہیروز پیدا کیے کس نے اپنی جان اس ملک کے نچھاور کی، کسی نے اپنی زندگی خدمت خلق میں گزار دی، کوئی دہشت گردی اور دشمنوں سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے تو کس ے اپنی زندگی اسلام کی خدمت اور تبلیغ میں گزار دی لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی ہیرو زمیں نمایاں رہے کیوں کہ انہوں نے اسلام کے نام پر بننے والے وطن عزیز پاکستان کو اسلامی ایٹمی وقت دے کر اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک ہر حکمران، جرنیل ،محافظ پاکستان نے اس طاقت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آخر کار میاں نواز شریف نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کرکے کل عالم کو بتا دیا کہ جو میلی آنکھ سے وطن عزیز کی طرف دیکھے گا تباہ کر دیا جائے گا۔ مگر افسوس پچھلے 10,20 برسوں میں جوڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ سلوک ہوا وہ تو لوگ دشمنوں کے ساتھ بھی نہیںکرتے ۔عربی میں ایک کہاوت ہے ”قریبی لوگ پچھوئوں کی طرح ہوتے ہیں” یہ تب کہا جاتا ہے جب کوئی اپنے قریبی دوست،عزیزواقارب، رشتہ دار پر حد سے زیادہ اعتماد کرنے کی وجہ سے نقصان اٹھا تا ہے۔ مجھے اس موقع پر ایک استاد صاحب کا واقع یاد آ رہا ہے ۔ایک استاد صاحب نے کلاس میں موجود جسمانی طور پر ایک مضبوط بچے کو بلایا اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا اور اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور بولے تگڑا ہو جا پھر اُسے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا اور دبانا شروع کر دیا ۔ وہ بچہ تگڑا تھا وہ اکڑ کر کھڑا رہا ۔ استاد صاحب نے اپنا پورا زور لگا نا شروع کر دیا۔ وہ بچہ دبنے لگا اور آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ استاد صاحب بھی اُسے دبانے کے لیے نیچے ہوتے چلے گئے۔ وہ لڑکا آخر میں تقریبا گر گیا اور اس سے تھوڑا کم استاد صاحب بھی زمین پر تھے۔
اُستاد صاحب نے اس کے بعد اسے اٹھایا اور کلاس سے مخاطب ہو کر بولے، آپ سب بچوں نے دیکھا کہ مجھے اس بچے کو گرانے کے لئے کتنا زور لگانا پڑا؟ دوسرا یہ جیسے جیسے نیچے کی طرف جا رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ ساتھ نیچے جا رہا تھا۔یہاں تک کہ ہم دونوں زمین کی سطح تک پہنچ گئے۔ استاد صاحب اس کے بعد رکے لمبی سانس لی اور بولے، یاد رکھنا ! ہم جب بھی زندگی میں کسی شخص کو نیچے گرانے یا دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو صرف ہمار اہدف ہی نیچے نہیں جاتا ہم بھی اس کے ساتھ زمین کی سطح تک آجاتے ہیں جب کہ اس کے برعکس ہم جب کسی شخص کو نیچے سے اٹھاتے ہیں تو صرف وہ شخص اوپر نہیں آتا ہم بھی اوپر اٹھتے چلے جاتے ہیں ہمارا درجہ ، ہمارا مقام بھی بلند ہو جاتا ہے، استاد صاحب اس کے بعد رکے اور بولے باکمال انسان کبھی کسی کو نیچے نہیں گراتا۔ وہ ہمیشہ گرے ہوئوں کو اٹھاتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ خود بھی اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے اوربلند ہوتا رہتا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اقبال کی خودی کے مطابق زندگی گزاری اور اقبال کے شاہینوں کے لیے مشعل راہ رہے ۔ سقراط کو جب زہر کا پیالا پینے کے لیے دیا جا رہا تھا تو وہ مسکرا رہا تھا اس کے دوست احباب نے پوچھا سقراط تم کیوں ہنس رہے ہوحالانکہ اس زہر کے بعد تم مر جاو گے ۔ سقراط نے مسکراتے ہوئے کہا دنیا میں کوئی ایسا زہر بنا ہی نہیں جو سقراط کو مار دے۔ سقراط نام ہے سوچ کا اور سوچ مرتی نہیں۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے