اروناچل پردیش (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی رہنما کے دورہ اروناچل پردیش پر چین نے اعتراض کیا ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے اور وہ اسے بھارتی ریاست تسلیم نہیں کرتا۔ بھارت کا دعوی ہے کہ اروناچل پردیش اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔
نئی دہلی نے بھارت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو کے دورہ اروناچل پردیش پر چینی اعتراضات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کی ایک “لازم و ملزوم” ریاست ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین کو اس طرح کے اعتراضات کے بجائے سرحد پر موجودہ کشیدگی کو دُور کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
چین بھارت کے زیر انتظام خطہ اروناچل پردیش کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ خطہ اس کی جنوبی ریاست تبت کا ایک حصہ ہے اور بھارت نے اس پر “غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔” جب بھی بھارت کا کوئی اہم سرکاری عہدیدار اس علاقے کا دورہ کرتا ہے تو چین اس پر اعتراض کرتا ہے۔
دونوں ممالک کے مابین حالیہ تلخ کلامی نے مشرقی لداخ میں سرحد پر پائی جانے کشیدگی کو پھر سے اجاگر کر دیا ہے جو دونوں ملکوں میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے بھی زائد عرصے سے جاری ہے۔ اس میں کمی کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ اور اروناچل پردیش کے محاذوں پر تصادم کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
دو روز قبل بھارت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو اروناچل پردیش کے دورے پر پہنچے تھے جس پر چینی وزارت خارجہ نے سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ ایسے دوروں کا سخت مخالف ہے اس لیے بھارت کو اس طرح کے اقدام سے باز رہنے کی ضرورت ہے ورنہ ان سرگرمیوں سے سرحدی معاملات حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا، “سرحدی مسئلے پر چین کا موقف مستقل اور واضح رہا ہے۔ چینی حکومت نے کبھی بھی نام نہاد اروناچل پردیش کو تسلیم نہیں کیا جو بھارت کی جانب سے یک طرفہ طور پر اورغیر قانونی طور پر قائم کی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق جہاں تک اس علاقے کا تعلق ہے تو چین کسی بھی بھارتی رہنما کے دورے کا سخت مخالف ہے۔
چینی ترجمان نے مزید کہا، “ہم بھارت پر زور دیتے ہیں کہ وہ چین کے ان اہم خدشات کا احترام کرے، کوئی بھی ایسا اقدام کرنے سے گریز کرے جس سے سرحدی مسائل مزید پیچیدہ اور وسیع ہونے کا خدشہ ہو۔”
چین کا کہنا ہے کہ سرحد پر مثبت اقدام سے ہی کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے۔ چینی ترجمان کے مطابق بھارت کو، “ان اقدامات کے بجائے سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے حقیقی اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں جن سے دو طرفہ تعلقات اور پائیدار ترقی کا سلسلہ آگے بڑھ سکے۔”
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی نے چین کے ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے اپنا وہی پرانا موقف دہرایا کہ اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔ بھارت متنازعہ خطہ کشمیر سے متعلق بھی یہی جواب دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، “ہم نے چین کے سرکاری ترجمان کے تبصرے کا نوٹس لیا ہے۔ ہم ان کے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ اروناچل پردیش بھارت کا ایک لازمی اور ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی رہنما اروناچل پردیش کا بھی اسی انداز سے دورہ کرتے رہتے ہیں جیسے ملک کی کسی دوسری ریاست کا دورہ کیا جاتا ہے، “بھارتی رہنماؤں کے ملک کی ایک ریاست کے دورے پر اعتراض کرنا، بھارتی عوام کی عقل و فہم سے بالا تر ہے۔”
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ چین کو مغربی سرحد پر پائی جانے والی کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (بھارتی حکومت لداخ کے لیے مغربی سیکٹر کا لفظ استعمال کرتی ہے)
بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کوئی نئی بات نہیں بلکہ سرحدی تنازعہ دیرینہ ہے۔
دونوں کے درمیان سرحد پر جاری فوجی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کا تیرہواں دور گزشتہ پیر کو ناکامی سے ہمکنار ہوا تھا۔ فریقین نے مذاکرات کی ناکامی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔