بستی ارائیاں اور واپڈا

Electricity

Electricity

تحریر : روہیل اکبر

جمہوری حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو بہتر سہولیات فراہم کرے خاص کر دیہاتی علاقوں میں رہنے والوں کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں فراہم کی جائیں کیونکہ وہیں سے ہمیں روٹی کھانے کے لیے گندم اور سالن پکانے کے لیے سبزی اور دالیں ملتی ہیں چائے میں ہم جو چینی استعمال کرتے ہیں اور جس گنے سے چینی حاصل کی جاتی ہے وہ کماد بھی دیہاتوں میں آگایا جاتا ہے ہمارے کسان جتنے محنتی اور انتھک ہیں اتنے ہی ہم شہری لوگ کاہل اور سست ہوتے ہیں ہم نے سامنے والی مارکیٹ میں بھی جانا ہو تو گاڑی یا موٹر سائیکل پر جاتے ہیں ایک میل کا پیدل سفر نہیں کرسکتے اور ہمارے گاؤں کے لوگ کئی کئی میل پیدل چل لیتے ہیں زرعی اجناس کو منڈیوں تک لانے کے لیے حکومت سڑکیں بناتی ہے بہتر طبی سہولیات کے لیے بی ایچ یو بنائے جاتے ہیں اور بجلی پہنچانے کے لیے لمبی لمبی لائیں بچھائی جاتی ہیں میرا تعلق بھی گاؤں سے ہے اور ہماری عمر کے لوگوں نے وہ وقت بھی دیکھا ہوا ہے جب بجلی کا نام نشان نہیں ہوتا تھا لالٹن اور دیوے کا دور ہوتا تھا۔

اس دور میں شہر میں بتیاں گننے کا لطیفہ بڑا مشہور ہوا کرتا تھا بہاولپور کے ساتھ ہیڈ راجکاں اور اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر چک 36/DNBہے جہاں پر میں نے ہوش سنبھالی میری والدہ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین) اپنے گھرساہیوال سے جب گاؤں کے لیے روانہ ہوتی تو ہم تینوں بھائی اور بہن شازیہ پلیٹ فارم سے اباسین ایکسپریس میں بیٹھتے اور ڈیرہ نواب صاحب احمد پو رشرقیہ ریلوے اسٹیشن پر اتر جاتے صبح سے شروع ہونے والا یہ سفر شام تک جاری رہتا پھر وہاں سے گاؤں جانے کے لیے بس پر بیٹھتے جو رات گئے ہمیں گاؤں کے باہر جرنیلی سڑک پر اتارتی وہاں سے پھر ٹارچ لائٹوں کی روشنی میں ہمارے ماموں چوہدری ارشاد اور چوہدری اعجاز ہمیں گھر لے کر آتے (دونوں اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین)جہاں ہم سکول کی چھٹیاں گذارتے اس علاقے میں زمینی پانی نمکین ہونے کی وجہ سے کھال اور نہر کا پانی کنویں میں ملا کر پیا جاتا تھا بجلی کا نام و نشان نہ تھا اور طبی سہلولیات کے لیے کوئی ہسپتال بھی نہیں تھا مگر زندگی بڑی خوشحال تھی پرسکون تھی اور رشتے بھی پائیدار تھے جیسے جیسے ترقی کا سفر شروع ہوا ہم نے اپنے راستے بدل لیے پیسے کمانے کی دوڑ میں ہم اتنے آگے نکل گئے کہ رشتوں کی پہچان کھو گئے ترقی کے اس سفر میں کرپشن کو ہم نے اپنا ساتھی بنا لیا اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔

شہروں میں کرپشن کے قصے عام ہوگئے تو دیہاتوں میں بھی لوٹ مار شروع کردی گئی ابھی پچھلے دنوں گاؤں میں میری نانی کا انتقال ہوا تو میں گاؤں چلا گیا واپسی پر بہاولپور میں منظور گیلانی صاحب لاہور سے پہنچ گئے پھر ہم دونوں رحیم یار خان چلے گئے جہاں پر اختر میتلا کے ساتھ فیروزہ،خان پور،بستی ارائیاں سمیت بہت سے دیہی علاقوں میں گئے ایک رات ہم نے فیروزہ میں جام عاصم کے گھر بھی گذاری جہاں دیسی گندم کی روٹی نے بہت مزہ دیاجب ہم نئی بستی ارائیاں گئے تو وہاں کے سادہ لوح لوگوں کے ساتھ بھی لوٹ مار کا بازار گرم تھا آپ صرف ایک محکمے کا اندازہ لگالیں کہ انکے اہلکار کیسے کیسے لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں باقی کے 36محکموں کا کیا حال ہو گا۔

پورا گاؤں صرف ایک شخص سے تنگ تھا افضل نامی یہ شخص واپڈا میں معمولی ملازم ہے مگر اس نے پورے علاقے کی ناک میں دم کیا ہوا ہے اس کے کارناموں سے محسوس ہوتا تھا کہ ایکسیئن واپڈا اور ایس ڈی او واپڈا کی تعیناتیاں وہی کرتا ہے پورے علاقے سے پیسے اکھٹے کرتا ہے جسکی چاہتا ہے بجلی بند کرکے میٹر اتروا دیتا ہے جسے چاہتا ہے ڈائریکٹ بجلی کی لائن لگوا دیتا ہے پورا علاقہ تنگ ہے مگر کسی بھی افسر کی کیا مجال ہے جو اسکے کسی کام میں رکاوٹ ڈالے اسی طرح وہاں کی پولیس ہے جو قابو سے باہر ہے تھانے کیا ہیں عقوبت خانے ہیں اسی طرح باقی محکمے ہیں جو عوام کا سانس نکلنے نہیں دے رہے حکومت جتنی کوشش کرتی ہے اس نظام کو درست کرنے کی یہ کرپٹ ملازمین اسے اتنا ہی ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کا رویہ دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ یہ بھی اسی مافیا کا حصہ ہیں آپ اندازہ لگائیں کہ الیکشن کے دنوں میں کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے جیتنے والے کوئی پاگل لوگ تو نہیں ہیں کیا انہیں نہیں معلوم کہ کون کیا گل کھلا رہا ہے۔

انہیں سب معلوم ہوتا ہے پریشان حال فرد ہر جگہ کنڈی کھڑکاتا ہے اپنے نمائندوں کو بھی بتاتا ہے مگر کیا مجال ہے انکی جو وہ کچھ بول جائیں عمران خان اور بزدار سرکار لاکھ کوشش کرلیں بہتری لانے کی مگر جب تک ایسے ناسور معاشرے میں موجود ہیں تب تک کسی طرف سے کوئی بہتری نہیں ہوسکتی ہمارے تحقیقاتی ادارے بھی سوئے ہوئے ہیں سپیشل برانچ ہے،انٹیلی جنس بیورو ہے،آئی ایس آئی ہے حیرت ہے کہ وہ بھی ان لٹیروں کی لوٹ مار سے واقف نہیں ہے اگر واقف ہیں تو اپنی رپورٹوں میں واضح کیوں نہیں کرتے اگر یہ ادارے حکومت کو اپنی رپورٹیں بھجواتے ہیں تو پھر ان لٹیروں،چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوتی حکومت کا کام عوام کو تحفظ اور ریلیف دینا ہے پنجاب حکومت اپنے طور پر اسکے لیے بھر پور کوشش بھی کررہی ہے مگر جب تک اداروں میں عوام کا خون چوسنے والے گدھ نما انسان موجود ہیں تب تک حکومتی کوششیں مٹی میں ملتی رہیں گی یہی ہمارا گراس روٹ لیول ہے سب سے پہلے اسی لیول کو لیول کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ہم ترقی اورخوشحالی کے پہلے زینے پر قدم رکھ سکیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر