لکھنا ایک جذبہ ہے ،ایک ضرورت ہے، اور اللہ کی طر ف سے عطا کردہ اس پوشیدہ صلا حیت کا اندازہ اکثریت کو تو ہوتا ہی نہیں اور کچھ بہت دیر بعداپنی اس خوبی سے واقف ہو تے ہیں،میرے اندر بھی چھپی ہوئی صلاحیت اب ظاہر ہو ئی ہے،شاعری سے تو میں معاشرتی احوال کو اجاگر کرنے کیلئے کو شاں ہوں لیکن اب میں نے انہی مسائل کو باقاعدہ تحر یر کی شکل میں قارئین تک پہنچا نے کا فیصلہ کیا ہے اب میر ے پڑھنے والے ہی فیصلہ کر یں گے کہ میرے الفاظ” حقیقت ہیں یاافسانہ ”میری آج کی تحریر کا موضوع خواتین کی آگے بڑھنے میں اصل رکاوٹ کیا ہے،اب تو یہ لفظ سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ ”لوگ کیا کہیں گے ”یہ وہ جملہ ہے جس نے بہت سے لوگوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا بہت سے خواب پورا ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئے، ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں خود سے زیادہ دوسروں کی فکر ہے اپنی غلطیوں کے لیے ہم وکیل ہیں لیکن دوسروں کی غلطیوں پہ جج بن جاتے ہیں۔ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ دوسرے کی روح تک چھلنی ہو جاتی ہے۔
آج میں جس معاشرے کی طرف اشارہ کر رہی ہوں وہ معاشرہ عورت کو اختیار نہیں دیتا، مشرقی عورت کو چا ہیے کہ وہ اپنے لئے یا پھر اس معاشرے کو بد لنے کیلئے جدو جہد کریں۔اگر میں اپنی بات کروں تو میں ایک آزاد معاشرے میں پیدا ہو ئی اس کے باوجود مشرقی معاشرے کابھی مجھ پر اثر کم نہ ہوا،لکھنے کے انداز الگ الگ ہیں جن میں سے ایک انداز شاعر ی کا بھی ہے ،ویسے تو آپ کو یہاں کئی شاعر ملے ہو نگے لیکن کسی شاعرہ سے ملنے کا اتفاق شاید ہی ہو ا ہو اور اس کی اصل وجہ اس معاشرے کی تنگ نظری ہے جو عورت کی ترقی سے خوفزدہ ہے اگر خواتین کو مو قع دیا تو کہیں یہ نہ سننا پڑ جا ئے کہ ”لوگ کیا کہیں گے”۔
جب میں نے شاعر ی کا آغاز کیا تو مجھے بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کر نا پڑا،زیادہ اعتراض لباس، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور شاعرانہ اصول نہ اپنا نے پر تنقید کا نشانہ بنی۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں عورت کو قدم قدم پر آگے بڑھنے کیلئے رکاوٹیں درپیش ہیں اور معاشرے کا یہ کڑواسچ ہے کہ خواتین شاعروں کے” کلام” سننے کے بجا ئے ان کی ظاہری شکل و صورت کو زیادہ اہمیت دی جا تی ہے ۔اس وجہ سے شاعر ہ کواپنی شاعری کیلئے اپنی شناخت تک چھپا نا پڑ جا تی ہے کئی تو معاشرتی بے حسی کے سامنے ہتھیار ڈال کر کوئی اور شعبہ اختیار کر لیتی ہیں۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ عورت اور مرد میں یہ فرق پاکستان کی ترقی میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔
قارئین میری شاعری کی پہلی انگریزی کتاب”a bright mind,a dark reflection” جب چھپی تو سب سے زیادہ پذیر ائی پاکستان میں ملی،میں تصو ر بھی نہیں کرسکتی تھی کہ اس کے پڑھنے والے اتنے دور سے بھی ہونگے اور اس کتاب نے مجھے ان کے قریب تر کر دیا ہے۔میں نے اپنی کتاب میں انسان کے ساتھ رونما ہو نے والے منفی تجربات کو شاعری میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
جب انسان اپنے آپ کو ناکام محسوس کرتا ہے تو کیر ئیر کو لوگوں کی وجہ سے بدلنے پر مجبور ہو جا تا ہے، میںنے اپنی کتاب میں ایک مضمون ایسا رکھا ہے کہ جس میں ہر انسان ایک ایسے دور سے گزرتا ہے کہ اسے کچھ دکھا ئی (سجائی)نہ دے کہ وہ فیصلہ نہیں کر پا تا کہ اب کد ھر جا ئے یہی وہ کمزرو لمحہ ہو تا کہ انسان بے بس ہو جا تا ہے ، میں نے اس کتاب میں بلاوجہ کی بدنامی جسے ایشو کے خاتمے کیلئے اپنے اور قارئین کیلئے ایک نئی بے داغ شناخت حاصل کرنے کی خواہش کی ہے۔
میں نے اپنی کتاب میں اس نقطے پر زور دیا ہے کہ ہر انسان اپنے ہو نے کی وجہ سے ہی عزت کا حق دار ہے۔بحثیت ایک عورت ہو نے کے حوالے سے خواتین کیلئے میرا پیغام ہے کہ” لو گ کیا نہیں کہیں گے” کو قبول کرتے ہو ئے تنگ نظر لوگوں کے نظر ئیے کو نظر انداز کیا جا ئے ”عورت کبھی ہارتی نہیں، انہیں ہرایا جا تا ہے۔لوگ کیا کہیں گے، کہہ کہہ کر چپ کرایا جا تا ہے۔”
اور آخر میں یہ غزل ان عورتوں کی نظر کرنا چاہتی ہوں جو لکھتی ہیں اور لکھنا چاہتی ہیں۔
میں سچی بات کرنا چاہتی ہوں گلوں میں رنگ بھرنا چاہتی ہوں
مجھے کوئی نہ اب مٹھی میں رکھے ہواوں میں بکھرنا چاہتی ہوں
نئی خوشبو سے مہکے گا شہر اب کلی بن کر نکھرنا چاہتی ہوں
بھری برسات میں بہتی ندی کو رنگوں کے ساتھ بھرنا چاہتی ہوں
میری آواز گونجے آسماں تک سروں میں یوں اترنا چاہتی ہوں
یہاں سب خوف میں ہیں سانس لیتے میں بے خوفی سے مرنا چاہتی ہوں مجھے جینا ہے ہر پل زندگی کو میں کب مرنے سے ڈرنا چاہتی ہوں