افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان نے افغانستان کو اقتصادی بحران اور انسانی تباہی سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ سے ایک ڈونر کانفرنس منعقد کرنے کی اپیل کی۔ طالبان حکمراں ماسکو میں دس علاقائی طاقتوں کی طرف سے اس اپیل کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
ماسکو میں بدھ کے روز روس کی میزبانی میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں روس، چین، پاکستان، بھارت، ایران، قزاکستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغزستان نے طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ سے کی گئی اس اپیل کی حمایت کی کہ افغانستان کی تعمیر نو میں مدد کے لیے حتی الامکان جلد از جلد ایک ڈونر کانفرنس منعقد کی جائے۔
شرکاء ممالک نے کہا کہ اس طرح کی کانفرنس کے انعقاد میں بہر صورت اس بات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے کہ افغانستان کی تعمیر نو کا”سب سے زیادہ بوجھ ان طاقتوں کو برداشت کرنا ہوگا جن کی فوجیں گزشتہ 20 برسوں سے زیادہ عرصے تک اس ملک میں موجود رہی تھیں۔”
یہ واضح اشارہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب ہے، جنہوں نے 11ستمبر 2001 کے ٹوئن ٹاورز حملوں کے بعد افغانستان پر فوج کشی کردی تھی اور جن کے جلد بازی میں ملک چھوڑ کر چلے جانے کے سبب گزشتہ اگست میں ملک پر طالبان کے کنٹرول کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔
امریکا نے ماسکو کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ واشنگٹن نے کہا تھا کہ وہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر اس کانفرنس میں شریک نہیں ہو رہا ہے البتہ مستقبل میں اس طرح کی بات چیت میں شامل ہوگا۔ روس نے امریکا کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا۔
روس نے کانفرنس میں شریک ملکوں کی طرف سے عالمی برادری سے افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان میں جاری تصادم علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
ماسکو کانفرنس میں طالبان حکومت کی نمائندگی نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی۔ عبدالسلام حنفی نے کانفرنس کوپورے خطے کے استحکام کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔
گوکہ روس سمیت کسی بھی ملک نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے تاہم کانفرنس میں اس امر کو تسلیم کیا گیا کہ اقتدار پر طالبان کا کنٹرول ایک”نئی حقیقت” ہے۔
عبدالسلام حنفی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں موجودہ حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے کہا”افغانستان اب مستحکم ہے اور دوسرے ممالک کو افغان سرزمین سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ امارات اسلامی یہ یقینی بنائے گی کہ کوئی خطرہ نہ ہو۔”
نائب وزیر اعظم نے کہا افغانستان کو تنہا کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر نئی حکومت کو تسلیم اور سپورٹ نا کیا گیا تو قدرتی طور پر سکیورٹی میں خلل ڈالنے والے مزید مضبوط ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا”نئی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی بھی گروپ کو افغانستان کی عوام، اس کے ہمسائے اور دیگر علاقائی ممالک کی سکیورٹی کو کمزور نہیں کرنے دیں گے۔”
افغان رہنما نے امریکا پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرے۔
روس نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ اپنی حکومت میں تمام نسلی گروپوں اور تمام سیاسی طاقتوں کو شامل کریں
پائیدار امن کے لیے شمولیتی حکومت ضروری روس نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ اپنی حکومت میں تمام نسلی گروپوں اور تمام سیاسی طاقتوں کو شامل کریں۔ کانفرنس میں طالبان سے اعتدال پسند پالیسیوں پر عمل اور افغانستان کے پڑوسیوں کے لیے دوستانہ پالیسیاں اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ شرکا نے داخلی پالیسی کے حوالے سے طالبان سے کہا ہے کہ وہ نسلی گرہوں، خواتین اور بچوں کے حقوق کا احترام کریں۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے صورت حال کو مستحکم کرنے کے لیے طالبان کے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا،”ایک نئی انتظامیہ نے اقتدار سنبھالا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ملک میں فوجی اور سیاسی صورت حال کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور نظم و نسق چلانے کے لیے ریاستی ڈھانچہ قائم کررہے ہیں۔”
روسی وزیر خارجہ نے تاہم کہا کہ ہم طالبان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی انتظامیہ ترتیب دیں ‘جس سے نہ صرف تمام نسلی گروپوں بلکہ تمام سیاسی طاقتوں کے مفادات کی عکاسی ہو، تاکہ ملک میں ایک پائیدار امن کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔
لاوروف نے کہا کہ ہم فی الحال طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کررہے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے وقت جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کررہا ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا،”ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کابل کے لیے انسانی بنیادوں پر موثر مالی امداد فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے وسائل کو حرکت میں لانے کا یہی وقت ہے۔”
خیال رہے کہ دیگر ممالک کے برخلاف روس نے کابل میں اپنا سفارت خانہ خالی نہیں کیا تھا اور اس کے سفیر طالبان رہنماوں کے ساتھ مسلسل رابطے ہیں ہیں۔ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس جلد ہی انسانی امداد افغانستان روانہ کر رہا ہے۔ ایک روز قبل ہی ماسکو نے کہا تھا کہ روس، چین اور پاکستان افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کے خواہش مند ہیں، جسے انسانی اور اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔
افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ایک بین الاقوامی میٹنگ میں طالبان کی شمولیت کو ان کی بڑی کامیابی کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔