امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کی ہائپرسونک میزائل صلاحیتوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ادھر چین کے لیے نامزد نئے امریکی سفیر نے کہا ہے کہ تائیوان کے حوالے سے چین پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے 20 اکتوبر بدھ کے روز چین کے ہائپرسونک میزائل کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ چند روز قبل ہی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ چین نے جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک ہائپرسونک گلائڈ گاڑی کا تجربہ کیا ہے۔
معروف اخبار فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگست میں کیے جانے والے اس تجربے میں جوہری صلاحیت کے حامل اس راکٹ کو لانچ کیا گیا، جس نے تقریبا ًکرہ ارض کا چکر لگایا۔ اس تجربے نے امریکی انٹیلیجنس کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔
اس حوالے سے جب صحافیوں نے جو بائیڈن سے سوال کیا کہ کیا انہیں چین کے ہائپرسونک میزائل سے متعلق خبروں پر تشویش ہے؟ تو انہوں نے کہا، ”جی ہاں۔”
ہائپر سونک ہتھیار فضا کے بالائی حصے میں تقریباً 6200ِٰ کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے مار کرتے ہیں۔ یعنی ان کی رفتار آواز کی رفتار سے پانچ گنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
فنانشل ٹائمز نے گزشتہ ہفتے کے اواخر میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ راکٹ خلا میں پرواز کے دوران پورے گلوب کا چکر لگا کر نیچے گرا، تاہم مقررہ ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ لیکن چین کی وزارت دفاع نے اس سے انکار کیا ہے اور اس رپورٹ کو مسترد کر دیا۔
امریکا اور اس کے اتحادی بھی ہائپرسونک ہتھیار بنانے کی اپنی رفتار تیز تر کر رہے ہیں، تاکہ چین اور روس جیسے ممکنہ مخالفین سے مقابلہ کیا جا سکے۔ اس ہفتے کے اوائل میں ایک امریکی سینیٹر آنگوس کنگ نے کہا تھا، ”ہائپرسونک ہتھیار اسٹریٹیجک گیم چینجر ہیں، جو اسٹریٹیجک استحکام کو بنیادی طور پر کمزور کرنے کی خطرناک صلاحیت رکھتے ہیں، جیسا کہ ہمیں معلوم ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”امریکا اس ترقی میں پیچھے نہیں رہ سکتا، ہم اپنے مدمقابل کی پیش رفت پر نظر رکھتے ہیں اور اسے خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہائپرسونک میزائل ممکنہ ”ڈراؤنے خواب” والے ہتھیار ہیں۔ چین یا روس کی جانب سے ایسے ہتھیاروں کی تیاری تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔”
صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں چین کے لیے اپنے پسندیدہ سفیر کو نامزد کیا ہے جنہوں نے حتمی منظوری سے قبل ارکان کانگریس سے بات چیت میں کہا کہ تائیوان کے حوالے سے چین کا رویہ جارحانہ ہے۔ نکولس برنس نے خاص طور پر تائیوان کے ایئر ڈیفنس زون میں حالیہ چینی جنگی طیاروں کے پروازکی مذمت کرتے ہوئے ان مشنوں کو ”قابل اعتراض” قرار دیا۔
نکولس برنس نے کہا کہ تائیوان کے مسئلے پر، ”حتمی طور پر ہم چین پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم تائیوان کو ایک ایسا سخت نٹ بنائیں جو ٹوٹ نہ سکے۔”
امریکا برسوں سے ”ون چائنا” یعنی متحدہ چین کی پالیسی پر قائم ہے۔ اس سیاسی موقف کے مطابق امریکا سرکاری سطح پر تائیوان کے دارالحکومت تائی پی کو تسلیم کرنے کے بجائے تمام معاملات بیجنگ سے طے کرنے کا پابند ہے۔ لیکن واشنگٹن کا تائیوان کے بجائے بیجنگ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ اس موقف سے مشروط بھی ہے کہ تائیوان کا مستقبل پرامن طریقے سے طے کیا جائے گا۔
تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست سمجھتا ہے لیکن چین اسے اپنے ملک کا ہی ایک حصہ قرار دیتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دنوں تائیوان کے ”مکمل انضمام” کے اپنے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ چین نے تائیوان کے دوبارہ انضمام کے حصول کے لیے طاقت کے ممکنہ استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا۔
تائیوان کا اپنا آئین ہے اور یہاں جمہوری طورپر رہنماؤں کا انتخاب ہوتا ہے۔ البتہ صرف چند ممالک ہی تائیوان کو تسلیم کرتے ہیں۔ امریکا