ہیرے کی پہچان صرف جوہری کو ہوتی ہے اور کپتان سے بہتر کوئی جوہری نہیں جس نے 22 سالہ شبانہ روز محنت سے شہباز گِل، فیصل واوڈا، زُلفی بخاری اور اُن جیسے کئی دوسرے نایاب ہیرے درآمد کیے جبکہ ملکی سطح پر فواد چودھری، اسد عمر، شیخ رشید، مراد سعید، فیاض چوہان، بابر اعوان اور فردوس عاشق اعوان کو ڈھونڈ نکالا۔ اپوزیشن ان صاحبانِ علم و فضل کو لاکھ ”چھان بورا” کہے، حقیقت مگر یہی کہ ساری رونقیں اِنہی کے دَم سے کیونکہ اگر یہ نہ ہوں توپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ”بھاں بھاں” کرنے لگیں اور ریٹنگ صفر تک جا پہنچے۔رہی یہ بات کہ اِن ہیرے موتیوں کی موجودگی کے باوجود گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں صرف ”ترقیٔ معکوس” ہی کیوں؟۔ تو عرض ہے کہ سارا قصور اپوزیشن کا ہے یا پھر عوام کا جو بار بار پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کو منتخب کرتے رہے۔ اب ظاہر ہے کہ گزشتہ تیس پینتیس سالوں کا گَند صاف کرنے کے لیے ستّر پچھترسال تو چاہییں لیکن قوم ہے کہ پلک جھپکتے میں ملک کو جنت نظیر بنانے کی اُمید لگائے بیٹھی ہے۔ اِسی لیے توخاں صاحب کہتے ہیں ”قوم میں صبر نہیں”۔
خاںصاحب پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ ضدی، اناپرست اور نرگسیت کا شکار ہیں اور اُنہی کی وجہ سے پارلیمانی سیاست میں غیرپارلیمانی الفاظ کی بھرمار ہوگئی۔ بجا! مگر کیا وہ اُن لوگوں کے مُنہ میں ”گھی شکر” ڈالتے جنہوں نے اُن کا استحصال کرتے ہوئے ربع صدی تک اُنہیں سیاست سے دور رکھا؟۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جونہی وہ 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ اُٹھائے پاکستان میں داخل ہوتے، ایوانِ وزیرِاعظم اُن کے لیے خالی کر دیا جاتا لیکن پھر بھی اپنے حق کے حصول کے لیے اُنہیں 22 سالہ جدوجہد کرنی پڑی۔ یہی وہ رَدِعمل ہے جو سامنے آیا اور خاںصاحب نے اپنا سارا غصہ اپوزیشن پر نکالا۔ اب ایک اکیلا تو پوری اپوزیشن کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، اِسی لیے خاںصاحب نے چُن چُن کر ایسے ہیرے اکٹھے کیے جو جاوبے جا اپوزیشن کو ”رَگڑا” دیتے رہیں۔چونکہ خاںصاحب خود الزام تراشیوں اور غیرپارلیمانی الفاظ کے ماہر ہیں اِسی لیے اُنہوں نے سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ کرنے والے ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کیں جو اِس فَن میں یَدِطولیٰ رکھتے ہیں۔
اقتدار میں آنے سے پہلے خاںصاحب اسد عمر کی یوں تعریف کیا کرتے تھے جیسے اُس نے دنیا جہان کی ساری معیشت گھول کے پی رکھی ہو۔ ہم جیسے لوگ بھی یہی سمجھتے تھے کہ اِدھر اسد عمر کو وزارتِ خزانہ ملی، اُدھر پاکستان کی تقدیر بدلی لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا”۔ اسد عمر نے وزارتِ خزانہ سنبھالی تو ابتدا ہی میں چاروں شانے چِت ہو گئے البتہ خاںصاحب کی باقی ٹیم کی ”کارکردگی” بہت بہتر رہی۔ کیا ہوا جو مراد سعید بیرونی ممالک میں پڑے کرپشن کے 200 ارب ڈالر واپس نہیں لاسکے لیکن قوم کو یہ پتہ تو چل گیا کہ ساری اپوزیشن چور ہے۔ کیا ہوا جو فیصل واوڈا کی کارکردگی صفر رہی لیکن وہ قوم کو یہ تو بتا گیا کہ ساری اپوزیشن اُس ایک ”بوٹ” کی مار ہے جو اُس نے ایک ٹاک شو میں ٹیبل پر رکھا۔ کیا ہوا جو شیخ رشید کے دَورِ وزارت میں پاکستان ریلوے میں ریکارڈ حادثے ہوئے لیکن اب وہ وزارتِ داخلہ میں مکمل ”فِٹ”۔ کیا ہوا جو فردوس عاشق اعوان المعروف ماسی مصیبتے کو کبھی مرکز اور کبھی پنجاب کے درمیان ”قلابازیاں” لگوائی گئیںلیکن پھر بھی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں وہ ایسے اَنمٹ نقوش چھوڑ گئی جو اب پارلیمانی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ کیا ہوا جو فیاض چوہان کو ایک دفعہ پھر ”نہتا” کر دیا گیا لیکن اُس کا دعویٰ اب بھی یہی ”ہم سا ہو تو سامنے آئے”۔ اِن ہیرے موتیوں کی کارکردگی تاریخ طویل مگر کالم کا دامن تنگ اِس لیے آگے بڑھتے ہیں۔
اسد عمر کے چاروںشانے چِت ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے آزمودہ حفیظ شیخ کو درآمد کیاگیا۔حفیظ شیخ نے معیشت کی بہتری تو خیرکیا کرنی تھی البتہ سینٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں یوں پِٹے کہ ”آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے”۔ آجکل پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کے آزمودہ شوکت ترین وزارتِ خزانہ سنبھالے ہوئے ہیں حالانکہ اصول یہ کہ ”آزمودہ را آزمودن جہل است”۔ تحریکِ انصاف کے وزیروں، مشیروں کی ”عظیم الشان ”کارکردگی سب کے سامنے اِس لیے اِس پر تبصرہ کارِبے کار البتہ ذکر اُس گوہرِ نایاب کا جس کی شہرت کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ نام نامی اُس انمول موتی کا رضا باقر جس کے پاس قومی خزانے کی چابیاں۔ اُس کا ایک ایسا بیان سامنے آیاجسے سُن کر اہلِ فکرونظر وَرطۂ حیرت میں۔ موصوف فرماتے ہیں ”ڈالر مہنگا ہونے اور روپے کی قدر کم ہونے سے اگر کچھ پاکستانیوں کو نقصان ہو رہا ہے تو سمندپار پاکستانیوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو فائدہ بھی تو ہو رہا ہے”۔ یہ اُس شخص کا بیان ہے جو گورنر سٹیٹ بینک ہے اور جس سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کی گئی تھیں۔ کیا اُسے یہ بھی پتہ نہیں کہ ڈالر مہنگا ہونے سے ”کچھ پاکستانیوں” کو نہیں، 22 کروڑ عوام کو نقصان ہو رہا ہے جبکہ اُس کے مقابلے میں لاکھوں سمندر پار پاکستانیوں کا فائدہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ میری بیٹی اور داماد امریکہ میں مقیم ہیں۔ یقیناََ ڈالر مہنگا ہونے سے اُنہیں فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن کیا اُن کی بہتری کا سوچتے ہوئے میں پوری قوم کی زندگیاں داؤ پہ لگا دوں؟۔اُس ٹیکنوکریٹ کو یہ بھی علم نہیں کہ بقول وزیرِاعظم ڈالر کی قیمت ایک روپیہ بڑھتی ہے تو بیرونی قرضے اربوں روپے بڑھ جاتے ہیں اور ملک میں مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ موجودہ ہفتے میں بھی 29 اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب نے کیا خوب کہا کہ اُردو لغت میں مہنگائی کے آگے عمران خاں کی تصویر لگا دینی چاہیے، لوگ خود ہی مہنگائی کا مطلب سمجھ جائیں گے۔ اِس سے پہلے ایک دفعہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا ”یوٹرن” پر عمران خاں کی تصویر لگا دینی چاہیے، لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حسد کی ماری اپوزیشن کی ”شُرلیاں” ہیں جن کا تحریکیوں پر ”کَکھ” اثر ہوتا ہے نہ ہونا چاہیے۔
مہنگائی کا کیا رونا کہ ہم تو اِس پر لکھ لکھ کر تھک بلکہ ”ہَپھ” چکے لیکن صاحبِ اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جنوری 2018ء میں جب نوازلیگ کی حکومت نے پٹرول 4 روپے 6 پیسے مہنگا کیا تو عمران خاں نے قیمتوں میں اِس اضافے کو عوام پر بوجھ اور شرمناک قرار دیا۔اُنہوں نے کہا کہ جب بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو سمجھ جائیں کہ آپ کا وزیرِاعظم چور ہے۔ بالکل بجا مگر پیپلزپارتی کے دَورِحکومت کے خاتمے پر پٹرول کی قیمت 114 روپے تھی جسے نوازشریف 62 روپے تک لے آئے۔ جب ایک انتہائی متنازع فیصلے پر نوازشریف کا تاحیات نااہل کیا گیا تب بھی پٹرول کی قیمت 71 روپے تھی اور نوازلیگ حکومت کے خاتمے پر 87 روپے 70 پیسے ۔ آج تبدیلی سرکار کے دَورِ حکومت میں نئے پاکستان میں پٹرول 138 روپے فی لِٹر۔ نوازلیگ کے دَورِ حکومت میں پٹرول کی قیمت میں مجموعی طور پر 12 روپے 93 پیسے اضافہ ہوا جبکہ تحریکِ انصاف کے صرف 3 سالہ دَورِ حکومت میں یہ اضافہ 51 روپے فی لِٹر سے بھی زیادہ ہے۔ ہم نہیں کہتے، معاشی ماہرین اور خلقِ خُدا کہتی ہے کہ مہنگائی نے پاکستانی عوام کے سارے کَس بَل نکال دیئے ہیں جس کی ذمہ دار حکومتِ وقت ہے جو بہتر معاشی پالیسیاں تشکیل دینے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔بین الاقوامی جریدے ”دی اکانومسٹ” نے حال ہی میں مہنگائی کے حوالے سے 43 ممالک کی فہرست جاری کی ہے ۔ اِس فہرست کے مطابق مہنگائی میں صرف 3 ممالک پاکستان سے آگے ہیں۔ دنیا کا مہنگا ترین ملک ارجن ٹائن، دوسرے نمبر پر ترکی، تیسرے نمبر پر برازیل اور چوتھے نمبر پر پاکستان ہے۔ اب یہ فیصلہ عوام پر چھوڑتے ہیں کہ چور کون ہے۔