پولیو کا عالمی دن اور ہمارے ورکر

Polio Workers

Polio Workers

تحریر : روہیل اکبر

گذشتہ روز پاکستان میں پولیو کا عالمی دن منایا گیا اللہ تعالی کی مہربانی اور حکمرانوں کی کاوشوں سے آج پاکستان پولیو فری بنتا جارہا ہے ہماری وہ ورکر بہنیں خصوصی طور پر خراج تحسین کی مستحق ہیں جو دل وجان سے اس مہم میں بچوں کو پولیو کے قطرے گھر گھر جاکر پلا رہی ہیں پنجاب اور سندھ میں تو پھر بھی سکون ہے لوگ سمجھداری کا مظاہرہ کررہے ہیں جبکہ کے پی کے اور بلوچستان میں آج بھی پولیو کے قطروں کو نامردی کے قطرے سمجھا جارہا ہے الٹی سمجھ کے یہ لوگ بے گناہ پولیو ورکروں کو قتل کررہے ہیں چند دن پہلے کے پی کے میں پولیو مخالف افراد کی فائرنگ سے خواتین ورکرز کی حفاظت پو مامور پولیس کانسٹیبل شہید کردیا گیا ہمیں سمجھ آنے میں ہمیشہ تاخیر ہوجاتی ہے ترقی یافتہ ممالک نے انہی قطروں کی بدولت پولیو کا خاتمہ کردیا ہے اور ہم آج بھی اس مرض سے گذر رہے ہیں دو قطرے نہ پلانے کی وجہ سے ہم بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور بنائے جارہے ہیں جس طرح کی باتیں شروع شروع میں کرونا ویکسین کے بارے میں کی جاتی تھیں بلکل اسی طرح کی مخالفت پولیو کی بھی کی جاتی تھی جو اب تک جاری ہے مگر آفرین ہے ان ورکروں پر جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا رہی ہیں۔

ایک دور تھا جب ہم بچے ہوا کرتے تھے تب کسی نہ کسی گاؤں میں پولیو اورچیچک کے مریض ضرور نظر آیا کرتے تھے شہروں میں بھی کوئی نہ کوئی بچہ یا جوان بیساکھی پر نظر آجاتا تھا ٹانگوں کی معذوری کے سبب ایسے افراد بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے تھے یا پھر کسی نہ کسی کے رحم کرم پر ہوتے تھے آج شائد ہی کہیں ہمیں پولیو کا مریض نظر آتا ہے جبکہ بچپن میں لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کی وجہ سے آج ہمیں چیچک کے مریض بھی نظر نہیں آرہے پولیو ایک بیماری کا نام ہے جو شخص در شخص منتقل ہو سکتی اور اعصاب کو کمزور کرنے والی بیماری ہے پولیو ایک لاعلاج بیماری ہے یہ بیماری بچوں میں عام ہے لیکن اس کے شکار بالغ افراد بھی ہوسکتے ہیں۔ پولیو ایک سنگین اور ممکنہ طور پر مہلک و متعدی بیماری ہے پولیو وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیلتا ہے اور دوسرے شخص کو متاثر کرتا ہے یہ وائرس متاثرہ شخص کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں فالج (جسم کے حصوں کو حرکت نہیں دے سکتے) ہو سکتا ہے۔ پولیو 1998 میں تقریباً دنیا کے تمام ہی ممالک میں موجود تھا اور براعظم افریقہ کے تمام ہی ممالک اس وائرس سے شدید متاثر تھے۔ سن 2011 تک پولیو صرف بھارت، پاکستان، افغانستان اور نائجیریا میں رہ گیا تھا۔

جبکہ بھارت کو 2011 میں پولیو فری ملک کراکر دیے جانے کے بعد 2014 میں نائجیریا میں بھی پولیو ختم ہوچکا ہے اب پولیو صرف پاکستان اور افغانستان میں رہ گیا ہے ہمیں عالمی برادری کی صف میں عزت و وقار کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیئے پولیو سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے پاکستانی معاشرہ صحت مندتب ہی ہوسکتا ہے جب ہم ان موذی امراض سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے گزشتہ کئی ماہ سے کوئی بھی کیس سامنے نہ آنا خوش آئند بات ہے اور یہ پولیو ورکرز کی تین دہائیوں پر محیط کٹھن جدوجہد کا ثمر اور پوری قوم کے تعاون کا مظہر ہے میں ان تمام پولیو ورکرز کو سلام پیش کرتا ہوں جو اس مرض کے خلاف تین دہائیوں سے میدان میں ہیں قوم ان ورکرز کی ہمیشہ مقروض رہے گی جنہوں نے ہماری گلی محلوں میں پولیو کے خاتمے کی جنگ لڑی اور جانیں قربان کیں پولیو ورکرز ہمارے ہیرو ہیں پولیو سے محفوظ پاکستان ہم سب کا مشن ہونا چاہیے جبکہ پولیو جیسے موذی مرض کا مکمل خاتمہ حکومت کی ترجیحات میں بھی شامل ہے۔

اسی لیے پنجاب حکومت بچوں کوصحت مند مستقبل دینے کے لئے تمام وسائل بروئے کا ر لا رہی ہے اس وقت انسداد پولیو مہم کے لئے محکمہ صحت کے ساتھ انتظامیہ بھی متحرک ہے والدین سے اپیل ہے کہ وہ بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلائیں پولیو کے خلاف جنگ قوم کے نو نہالوں کے مستقبل کی جنگ ہے، پولیو کی تاریخ پر اگر ایک نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 20 ویں صدی سے پہلے پولیو جیسی بڑی وباؤں کا علم نہیں تھا لیکن یہ بیماری انسانی تاریخ میں کہیں نا کہیں موجود تھی جو انسانی جسم کے بیشتر حصے میں فالج اورپھر موت کا سبب بنتی ہے پولیو 1900 کی دہائی تک ایک مقامی بیماری کے طور پر خاموشی سے زندہ رہا جب یورپ میں بڑی وبائی بیماریاں پھیلنا شروع ہوئیں اور خاص کر امریکہ میں بڑے پیمانے پر وبائی بیماریاں نمودار ہوئیں تو پھر اس پر تحقیقات کی گئی یہ امراض 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں اپنے عروج پر تھے اورپولیو ہر سال دنیا بھر میں نصف ملین سے زیادہ افراد کو مفلوج یا ہلاک کر دیتا تھا۔

ان وبائی امراض کا خوف اور اجتماعی ردعمل کا نتیجہ تھا کہ بیماری کی روک تھام اور علاج کے لیے نئے طریقے دریافت ہوئے جسکی بدولت طبی میدان میں انقلاب آیا اور پولیو جیسی موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوسکا آج پولیو کے خاتمہ اور دنیا بھر میں معذوری کے حقوق کی تحریکیں عروج پر ہے کیونکہ پولیو کی معذوری کے بعد ایک انسان پر جو بیتتی ہے وہی جانتا ہے۔ پولیو ویکسین پولیو وائرس سے لڑنے کے لیے بچوں کے جسم کی مدد کرتا ہے اور بچوں کی حفاظت کرتا ہے ویکسین کے صرف چند قطرے پینے سے تقریبا 100فیصد بچوں کی پولیو سے حفاظت یقینی ہوجاتی ہے۔ فعال پولیو وائرس ویکسین (IPV) اور زبانی پولیو وائرس ویکسین (وپیوی) پولیو کی روک تھام کر سکتے ہیں ویکسین کی دو قسمیں ہیں صرف IPV 2000 کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا میں استعمال کیا گیا ہے یہی پولیو ویکسین اب بھی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر