امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق چینی حکام کو کورونا پھیلنے سے پہلے اس وبا کے بارے میں پیشگی کوئی علم نہیں تھا۔ چین نے کووڈ 19 سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی تازہ رپورٹ پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔
امریکی خفیہ ادارے ‘ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس’ (او ڈی این آئی) نے اپنے تمام نئے جائزوں اور اندازوں کے بعد پھر سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کورونا وائرس کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر نہیں تیار کیا گیا۔ کووڈ انیس کے آغاز سے متعلق 29 اکتوبر جمعے کو ادارے نے جو نئی رپورٹ جاری کی اس کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ممکن ہے کہ کووڈ 19 کے آغاز کی وجوہات کا کبھی بھی پتہ نہ چل سکے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اسے حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کے لیے نہیں تیار کیا گیا۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وبا کے پھیلنے سے پہلے چینی حکام کو اس وائرس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ بعض غیر متوقع دریافتوں کے علاوہ، امریکی خفیہ اداروں کو پھر سے قطعیت کے ساتھ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ وائرس پہلی بار جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا، یا پھر اس کی ابتدا صوبے ووہان کے انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی کی لیبارٹری سے ہوئی۔
اس سوال پر کہ یہ وائرس کیسے پھیلا، ادارے نے اپنے تازہ ترین جائزے کی رپورٹ میں کہا کہ جانوروں سے انسانوں میں منتقلی یا پھر لیب سے اس کا پھیلنا، دونوں ہی قابل فہم مفروضے ہیں۔ لیکن کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے مناسب معلومات میسر نہیں تھیں۔
چار امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے کم اعتماد کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ابتدائی طور پر یہ وائرس ایک جانور سے انسان میں منتقل ہوا تھا جبکہ ایک پانچویں ایجنسی کو معتدل طور پر یہ اعتماد ہے کہ انسانوں میں پہلا انفیکشن ووہان میں وبائی امراض کے ادارے ‘انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی’ میں ہوا تھا۔
اس رپورٹ کا مسودہ تیار کرنے میں شامل ایک سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس سے عوام کو اس دشواری کے بارے میں بہتر طور پر آگاہ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں یہ وائرس کیسے پھیلا، اس کا تعین کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔
ایک اہلکار نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چيت میں کہا، “ہمیں نہیں لگتا کہ ہم اس سے متعلق ایک یا دو رپورٹ کے بعد اسے مکمل طور پر سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے۔”
چین نے امریکی خفیہ اداروں کی اس رپورٹ پر شدید تنقید کی ہے۔ واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے انٹیلیجنس رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے، خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، “امریکا کی جانب سے کووِڈ انیس کے آغاز کا پتہ لگانے کے لیے سائنسی طریقہ کار اپنانے کے بجائے اپنے انٹیلیجنس آلات پر انحصار کرنا، مکمل طور پر ایک سیاسی مذاق ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، “ہم اس کی حقیقت کا پتہ لگانے کے لیے سائنس پر مبنی کوششوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، اور ہم اسی طرز پر فعال طریقے سے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ہم اس مسئلے کو سیاسی رخ دینے کی کوششوں کے بھی سخت مخالف ہیں۔”
امریکی صدر جو بائیڈن نے کورونا وائرس کے آغاز کا پتہ لگانے کے لیے خفیہ اداروں کو اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔ امریکی خفیہ اداروں نے 90 دن کے اپنے جائزے کے بعد جو پہلی رپورٹ گزشتہ اگست میں جاری کی تھی، یہ تازہ رپورٹ تقریبا اسی کی تفصیلات ہے۔
چینی حکام کا موقف ہے کہ صوبے ووہان کے مچھلی اور گوشت کے بازار سے اس وبا کی ابتدا ہوئي اور وہیں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا۔ اس حوالے سے سائنسدانوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ وائرس سب سے پہلے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
لیکن اس برس کے اوائل میں کئی امریکی میڈیا اداروں کی رپورٹس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ اس بات کے کافی شواہد ہیں کہ وائرس گوشت و مچھلی کے بازار کے بجائے شاید ووہان کی لیبارٹری میں کسی حادثاتی غلطی کے سبب لیک ہوا تھا۔
انہیں میڈیا رپورٹوں کے بعد اس برس مئی میں صدر جو بائیڈن نے انٹیلیجنس حکام کو وائرس کی ابتدا کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔ چین، ووہان کی سائنسی تجربہ گاہ سے وائرس کے لیک ہونے کی مبینہ تھیوری کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔