اتر پردیش (اصل میڈیا ڈیسک) یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان طالبان کی وجہ سے پریشان ہیں تاہم بھارت کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتا۔ ان کے مطابق طالبان کی حمایت بھارت کی مخالفت کے مترادف ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات جیسے جیسے قریب تر ہو رہے ہیں ویسے ویسے بھارت میں کشمیر، پاکستان اور طالبان کے حوالے سے سیاست گرم ہوتی جا رہی ہے۔ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے ہر روز اس حوالے سے کوئی نہ کوئی متنازعہ بیان ضرور آتا ہے۔
یکم نومبر پیر کے روز سخت ہندو نظریات کے حامل ریاستی وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ طالبان کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان پریشانی محسوس کر رہے ہیں تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ملک اتنا مضبوط ہو گيا ہے کہ بھارت کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔
اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی نے ریاست میں ایک سماجی رابطے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور وزیر اعلی اسی سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں پر بھی نکتہ چینی کی۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا،’’آج وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ملک کافی طاقتور ہو چکا ہے اور کوئی بھی ملک بھارت کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرات بھی نہیں کر سکتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ آج پاکستان اور افغانستان جیسے ملک طالبان کی وجہ سے پریشانی محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن طالبان کو یہ بات معلوم ہے کہ اگر انہوں نے بھارت کی جانب قدم بڑھایا تو ان کے لیے فضائی حملہ تیار ہے۔
پیر کے روز ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست میں اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف اور سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی کہ انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کا موازنہ بھارتی رہنما سردار پٹیل سے کیا، جو ایک ’’شرمناک‘‘ بات ہے اور طالبانی ذہنیت کی عکاس ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’یہ طالبانی ذہنیت ہے، جو تقسیم پر یقین رکھتی ہے۔ سردار پٹیل نے تو ملک کو متحد کیا تھا۔ فی الحال، وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں، ایک متحد اور اعلی ترین بھارت کے حصول کے لیے کام جاری ہے۔‘‘ بھارتی میڈیا اور حکام بانی پاکستان محمد علی جناح ایک ولن کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔
حالانکہ اکھیلیش یادو نے موازنہ کرنے کے بجائے بات کچھ اس طرح کی تھی، ’’سردار پٹیل، گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح جیسی شخصیات نے ایک ہی ادارے سے تعلیم حاصل کی تھی اور بیرسٹر بنے تھے۔ انہوں نے بھارت کی آزادی کے لیے جد وجہد کی اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔‘‘
ایک جلسے سے خطاب کے دوران بی جے پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا، “سردار پٹیل نے آر ایس ایس کے نظریات پر پابندی بھی عائد کی تھی۔ آج اسی نظریے کے لوگ، جو متحدہ کرنے کا دعوی کر رہے ہیں، ملک کو مذہب اور ذات پات کے نام تر تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔”
بھارت میں بیشتر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یوپی کی یو گی حکومت کو اس بار سخت ترین حکومت مخالف رجحان کا سامنا ہے اور اسی لیے وہ اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے تاکہ عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کر کے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔
لکھنؤ کے سینیئر صحافی آلوک ترپاٹھی کے مطابق ریاست میں بے روزگاری، مہنگائی اور کورونا کی وبا کے سبب ہونے والی اموات ایسے بڑے موضوعات ہیں، جن کی وجہ سے یوگی حکومت کو سخت تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے،’’ ایسی صورت میں ان کے پاس مذہبی کارڈ کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اسی لیے اس مرتبہ بی جے پی اتر پردیش کے انتخابات میں طالبان کا بھی خوب ذکر کرے گی۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے آلوک ترپاٹھی نے کہا، ”اب انتخابات سے قبل ایسے اقدامات سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت ہندوؤں کے مفادات کا خیال رکھتی ہے اور اس نے مسلمانوں کو قابو میں کر رکھا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ اس طرح کے تاثر سے اسے سیاسی فائدہ ہو گا، ورنہ الیکشن سے قبل اس طرح کے اعلانات کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے؟‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلی کو اس بار اسمبلی انتخابات میں سخت قسم کے حکومت مخالف رجحان کا سامنا ہے اور اسی لیے وہ بار بار طالبان اور پاکستان کا موضوع چھیڑتے رہتے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔
گرچہ بھارتی حکومت طالبان سے اپنے رشتے استوار کرنے اور تعلقات بہتر کرنے کے لیے بات چيت کے تمام راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے تاہم یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ طالبان کی حمایت کا مطلب بھارت کی مخالفت ہے۔ اس سلسلے میں پولیس نے یو پی میں بعض افراد کے خلاف بغاوت کا کیس بھی درج کیا تھا۔
اس کے بعد یو گی کی حکومت نے طالبان کی سرگرمیوں کے حوالہ دیتے ہوئے بھارت میں مذہبی درسگاہ کے لیے معروف مقام دیوبند میں ایک ‘اینٹی ٹیررازم اسکواڈ’ (اے ٹی ایس) کے لیے تربیتی مرکز کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔
ضلع سہارنپور کا قصبہ دیوبند اپنے تاریخی مدرسے دارالعلوم دیوبند اور فقہ اکیڈمی کے لیے عالمی سطح پر معروف ہے۔ دیوبند میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور نسبتا پرامن علاقہ ہے جہاں شاذ و نادر ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے۔
یو گی کی حکومت نے تبدیلی مذہب کے نام پر کئی سرکردہ مذہبی مسلم اسکالر کو گرفتار کر رکھا ہے جبکہ حال ہی میں ریاست کے کئی مقامات پر گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔