گلاسگو (اصل میڈیا ڈیسک) گلاسگو عالمی ماحولیاتی کانفرنس شروع ہوگئی ہے جس میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے جی 20 ملکوں کے کوئی ٹھوس موقف اختیار نہ کرنے پر ماحولیاتی کارکنوں کو سخت مایوسی ہوئی ہے۔
گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس یا سی او پی 26 میٹنگ پیر کے روز شروع ہو گئی۔ اس سے قبل اتوار کے روز روم میں جی 20 ملکوں کے سربراہوں کی دو روزہ میٹنگ ہوئی۔ ماحولیاتی کارکنوں کو توقع تھی کہ گلاسگو کانفرنس سے قبل دنیا کے 20 اہم ملکوں کے رہنما ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کسی ٹھوس موقف کا اعلان کریں گے تاہم یہ رہنما ضر ررساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے یا کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے کسی متعین تاریخ کو طے کرنے میں ناکام رہے۔
سی او پی 26 کی طرف سے جاری ایک مشترکہ اعلامیہ کے مطابق گوکہ جی 20 کے رہنما عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے پرمتفق تھے تاہم وہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے کے لیے کوئی مقررہ تاریخ طے نہیں کر پائے۔
اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ جی 20 میٹنگ میں بہت معمولی پیش رفت ہوسکی، اٹلی کے وزیر اعظم اور جی 20 کے صدر ماریو دراگی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے روم جی 20 کانفرنس میں کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آنے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا،”گوکہ عالمی مسائل کے حل کے حوالے سے جی 20 کے اپنے عزم کے اعادہ کا میں خیرمقدم کرتا ہوں، میں اپنی امیدوں کو پورا ہوئے بغیر ہی روم سے واپس جا رہا ہوں، بہر حال یہ امیدیں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ امید ہے کہ گلاسگو میٹنگ میں کسی فیصلے پر پہنچا جا سکے گا۔”
جی 20 کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جی 20 کے رہنما کوئلے سے تیار ہونے والے ایندھن کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی یقین دہانی کرانے میں ناکام رہے۔
بیان میں کہا گیا ہے،”ہم اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئلے سے بجلی کی پیدا کرنے کے لیے نئے کارخانے لگانے سے حتی الامکان گریز کریں گے۔ ہم کوئلے کے استعمال کو ختم کرنے کی رفتار کو تیز کرنے کے سلسلے میں پیرس معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔”
تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور امریکی صدر جو بائیڈن روم میٹنگ سے مایوس نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ تمام رہنما اس بات پر متفق تھے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پیرس معاہدے کو برقرا ررکھا جائے۔ اور جی 20 کے رہنماوں نے گلاسگو کانفرنس سے قبل ایک ‘اچھا اشارہ‘ دیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کی نمائندہ الیگزنڈرا ناہمین نے بتایا کہ میرکل ”مشترکہ اعلامیہ سے بہت خوش نظر آئیں کیونکہ تمام رہنماوں نے اس پر دستخط کیے ہیں۔” ناہمین کا کہنا تھا کہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جی 20 کی سابقہ کانفرنسوں میں 20 رہنماوں میں سے صرف 19نے دستخط کیے تھے۔ ان کا اشارہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب تھا جنہوں نے جی 20کی ماحولیات سے متعلق بیان پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔
صدر بائیڈن نے جی 20 میٹنگ کی پیش رفت پر قدرے اطمینان کا اظہار کیا تاہم انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کی میٹنگ میں غیر موجودگی کی نکتہ چینی کی۔
بائیڈن نے کہا کہ یہ مایوس کن ہے روس اور چین اپنے وعدوں پر قائم نہیں رہ سکے۔
قبل ازیں برطانیہ کے پرنس چارلس نے جی 20 کے رہنماوں سے خطاب کرتے ہوئے اپیل کی کہ وہ نوجوانوں کی باتوں پر توجہ دیں جنہیں وراثت میں ایک گرم کرہ عرض مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدترین مضمرات کو روکنے کے لیے ہمارے پاس اب بھی وقت ہے اور ہمیں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔