بات جوہری تنازعے کی ہو تو امریکا کو الزائمر ہو جاتا ہے، ایران

United States and Iran

United States and Iran

تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی حکومت نے کہا ہے کہ تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق بات کرتے ہوئے امریکا الزائمر کے مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔ تہران حکومت کے مطابق امریکا بھول جاتا ہے کہ اس جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت میں جمود کا ذمے دار کون ہے۔

تہران سے پیر یکم نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایرانی وزرات خارجہ نے اپنے آج جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ امریکا ‘لازمی طور پر الزائمر کا مریض‘ بن چکا ہے، اس لیے کہ (ایران کے) جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں موجودہ تعطل کے اسباب کے حوالے سے امریکا یہ بھول جاتا ہے کہ یہ تعطل کس کی وجہ سے پیدا ہوا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا، ”ویانا میں طے پانے والے معاہدے سے ایران نہیں بلکہ امریکا یک طرفہ طور پر نکلا تھا۔ لیکن یہی بات امریکا بھول چکا ہے اور بظاہر اس معاملے میں امریکا کو اب الزائمر کے مرض کا سامنا ہے۔‘‘

سعید خطیب زادہ نے کہا، ”تہران کو دھمکیاں دینے کے بجائے، امریکا کو سب سے پہلے کرنا یہ چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کی طرف لوٹے اور ایرانی معیشت کے خلاف اپنی طرف سے لگائی گئی بہت نقصان دہ اقتصادی پابندیاں ختم کرے۔‘‘

ایرانی وزارت خارجہ کے اس تازہ ترین بیان کی وجہ ویک اینڈ پر اطالوی دارالحکومت روم میں ہونے والی وہ جی ٹوئنٹی سمٹ بھی بنی، جس میں امریکا نے فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔

ان چاروں ممالک کے رہنماؤں نے کہا کہ تہران کے جوہری پروگرام کے باعث پیدا شدہ صورت حال میں کسی ‘نئی خطرناک شدت‘ سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایران واپس مذاکرات کی میز پر لوٹے۔

تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق اس کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ اسی تنازعے میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے آج یکم نومبر کو ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب اس بارے میں ”بہت زیادہ گفتگو کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘

ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔

حسین امیر عبداللہیان نے مطالبہ کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو اپنے ایک ایگزیکٹیو حکم نامے کے ذریعے واشنگٹن کی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کا بلاتاخیر اعلان کر دینا چاہیے۔

ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدہ طویل مذاکرات کے بعد 2015ء میں ویانا میں طے پایا تھا۔ اس کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔ جواباﹰ امریکا کو ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیاں اٹھانا تھیں، جو بہت حد تک اٹھا بھی لی گئی تھیں۔

یہ معاہدہ اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا تھا جب 2018ء میں اس دور کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کے اس معاہدے سے یک طرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے تب ایران کے خلاف نئے سرے سے اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔ اس کے بعد سے اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو افزودہ کرنے کی شرح کے لحاظ سے ایران بھی مسلسل اس معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔

تہران اور عالمی طاقتوں کے مابین اس معاہدے کو مکمل ناکامی سے بچانے کے لیے مذاکرات کا آغاز اس سال اپریل میں ہوا تھا۔ پھر ایران میں سخت گیر مذہبی رہنما ابراہیم رئیسی کے نیا ملکی صدر منتخب ہو جانے کے بعد یہ مذاکرات دوبارہ جمود کا شکار ہو گئے تھے۔

اب تہران میں ملکی قیادت کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کا نیا دور ممکنہ طور پر اسی مہینے شروع ہو سکتا ہے۔