ایتھوپیا میں ملک گیر ایمرجنسی نافذ

Ethiopia Emergency

Ethiopia Emergency

ایتھوپیا (اصل میڈیا ڈیسک) ایتھوپیا حکومت نے ملک گیرایمرجنسی نافذ کردی اور عوام سے دارالحکومت عدیس ابابا کا دفاع کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے۔ تیگرائی خطے کے دو اہم شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد جنگجووں نے قومی دارالحکومت کی طرف کوچ کرنے کی دھمکی دی ہے۔

حکومت سے وابستہ خبر رساں ایجنسی فانا براڈکاسٹنگ نے بتایا،”ایمرجنسی نافذ کرنے کا مقصد ملک کے متعدد حصوں میں دہشت گرد گروپ تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں سے شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ گروپ گزشتہ ایک برس سے وفاقی حکومت کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے اور گزشتہ دنوں اس نے اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم امہارا علاقے کے دو اہم شہروں پر قبضہ کرلیا تھا۔

حکومت نے فی الحال چھ ماہ کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت انتظامیہ کو سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے، ٹرانسپورٹ سروسز کو معطل کرنے، کرفیو نافذ کرنے اور بعض علاقوں کو فوج کی تحویل میں دینے سمیت متعدد اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔”دہشت گرد” گروپ سے تعلق رکھنے کے شبہ میں کسی بھی شخص کو عدالت کے حکم کے بغیر بھی گرفتار کیا جا سکے گا جبکہ فوجی خدمات کی عمر کو پہنچ جانے والے کسی بھی شہری کوجنگ میں شامل ہونے کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے۔

وزیر انصاف گیوڈیون ٹموتھیوز نے سرکاری میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہمارا ملک اپنے وجود، خودمختاری اور اتحاد کے لیے ایک سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ اور ہم ان خطرات کو عام قوانین اور ضابطوں کے ذریعہ ٹال نہیں سکتے۔”

انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کی خلاف ورزی مثلاً ”دہشت گرد گروپوں” کو مالی، مادی یا اخلاقی مدد کرنے والوں کو تین سے 10برس تک کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔

حکومت نے یہ قدم حالیہ دنوں میں امہارا خطے میں اسٹریٹیجک لحاظ سے اہمیت کے حامل دو شہروں ڈیزی اور کومبلوچا پر تیگرائی جنگجووں کے قبضے کے بعد اٹھایا ہے۔ جنگجووں کے اشاروں سے لگتا ہے کہ وہ دارالحکومت عدیس ابابا کی جانب بھی کوچ کرسکتے ہیں۔

ایتھوپیا حکومت نے کہا کہ فوج دارالحکومت سے تقریباً 400 کلومیٹر دو ان دونوں اہم شہروں کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے جنگ کر رہی ہے۔

ایتھوپیا کے بیشتر علاقوں میں مواصلاتی بلیک آوٹ ہے اور صحافیوں کی رسائی محدود ہے اس لیے میدان جنگ کے حوالے سے کیے جانے والے دعووں کی آزادانہ تصدیق بہت مشکل ہے۔

منگل کے روز عدیس ابابا میں حکام نے رہائشیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیاروں کا اگلے دو دنوں کے اندر اندراج کرالیں اور شہر کی حفاظت کرنے کے لیے تیار رہیں۔

ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد نے، ان کے بقول ٹی پی ایل ایف کے ذریعہ فوجی کیمپوں پر حملے کے جواب میں، نومبر 2020 میں تیگرائی میں فوج بھیج دی تھی۔ دوسری طرف ٹی پی ایل ایف کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اور ایریٹریا سمیت اس کے اتحادیوں نے ان کے خلاف ایک ”مربوط حملہ” شروع کررکھا ہے۔

ابی احمد نے جون کے اواخر میں جنگجووں کے خلاف کامیابی کا دعوی کیا تھا تاہم تیگرائی جنگجووں نے خود کو دوبارہ منظم کرکے خطے کے بیشتر علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس کے بعد جنگ پڑوسی امہارااور عفار خطے میں بھی پھیل گئی۔

قرن افریقہ کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر جیفری فیلٹ مین نے منگل کے روز ٹی پی ایل ایف کی جانب سے فوجی مہم میں توسیع کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا،”ہم تیگرائی کے باہر ٹی پی ایل ایف کی جانب سے جنگ میں توسیع کی مسلسل مذمت کرتے رہے ہیں اور ٹی پی ایل ایف سے ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں کہ وہ عفار اور امہارا سے واپس چلے جائیں۔”

امریکی سفیر نے کہا،”جنگ میں توسیع ناقابل قبول ہے لیکن اس کا خدشہ برقرار تھا کیونکہ ایتھوپیائی حکومت نے جون سے ہی تیگرائی میں انسانی امداد اور تجارتی رسائی کو روکنا شروع کردیا تھاحالانکہ وہاں بڑے پیمانے پر خشک سالی کی وجہ سے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔”

اس دوران امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے امریکا کے تاریخی اتحادی ایتھوپیا پر”انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں” کا الزام لگاتے ہوئے اسے ایک اہم تجارتی معاہدے ’افریقن گروتھ اینڈ اپورچونیٹی ایکٹ(اے جی او اے)‘ سے نکال دیا ہے۔

اقو ام متحدہ کا کہنا ہے کہ تیگرائی میں جاری تصادم کی وجہ سے انسانی بحران کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ لاکھوں افراد کو خشک سالی جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ ہزاروں افراد اب تک مارے جاچکے ہیں اور25 لاکھ سے زیادہ کو اپنے وطن چھوڑ نے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔