اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر نے افغانستان سے متعلق نئی دہلی میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ بھارت نے افغانستان کی مدد کے لیے پاکستان کو ایک تجویز پیش کی ہے لیکن پاکستان نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
پاکستان نے اپنے ایک بیان سے یہ بات واضح کر دی ہے کہ آئندہ ہفتے افغانستان سے متعلق نئی دہلی میں ہونے اجلاس میں وہ شامل نہیں ہو گا۔ چین نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے تاہم بھارتی میڈیا میں یہ خبر سہ سرخیوں میں ہے کہ پاکستان کی طرح وہ بھی اس اجلاس میں شریک نہیں ہو گا۔
اسلام آباد میں منگل کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا، ”میں تو نہیں جاؤں گا، ایک بگاڑ پیدا کرنے والا آخر امن قائم کرنے کی کوشش کیسے کر سکتا ہے؟” وہ ازبکستان کے اپنے ہم منصب سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
معید یوسف کا اشارہ غالباً بھارت کے اس بیان کی طرف تھا جس میں نئی دہلی خطے میں تمام مسائل کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے خطے میں تمام مسائل کی جڑ بھارت ہے۔
نئی دہلی کو افغانستان کی سکیورٹی کی صورت حال سے کافی خدشات لاحق ہیں اس لیے وہ بھی افغانستان کے حوالے سے ایک اعلی سطحی کانفرنس کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ اجلاس 10 سے 12 نومبر کے درمیان نئی دہلی میں ہونا ہے۔
بھارت نے اس اعلیٰ سطحی اجلاس کے لیے پاکستان، چین، ایران، روس، ازبکستان اور تاجکستان جیسے افغانستان کے پڑوسی ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کو مدعو کیا ہے۔ لیکن اس میٹنگ کے لیے طالبان کو دعوت نہیں دی گئی۔
پاکستان کے قومی سلامتی مشیرمعیدیوسف نے اس موقع پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے عالمی برادری کی خاموشی پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ ”بد قسمتی سے دنیا نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہ بھارت کے ساتھ اس طرح بات نہیں کر رہی جس طرح اسے کرنی چاہیے تھی۔”
ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی حاصل کرنے میں پاکستان کو کن رکاوٹوں کا سامنا ہے تو انہوں نے کہا، ” میرے خیال میں خطے کی رکاوٹیں آپ کے سامنے واضح ہیں، اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف بھارت ہے… بد قسمتی سے وہاں کی حکومت کے رویے اور اس نظریے کی وجہ سے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ (امن کا) عمل آگے بڑھ سکے گا،پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے۔”
غور طلب بات یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اب تک پاکستان کی پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی ایسی میٹنگ میں شامل ہونے کا قائل نہیں جس میں طالبان کا کوئی نمائندہ شامل نہ ہو۔ بھارت نے نئی دہلی میں جو اجلاس طلب کیا ہے اس میں اس نے طالبان کو مدعو نہیں کیا ہے۔
ابھی چین کی طرف سے اس حوالے سے کوئی با ضابطہ بیان نہیں آیا ہے کہ وہ نئی دہلی میں ہونے والے اجلاس میں اپنے قومی سلامتی کے مشیر کو بھیجے گا یا نہیں، تاہم بھارتی میڈیا میں بعض ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ چین بھی اس اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والا ہے۔
بعض بھارتی اخبارات نے بھارتی حکام کے حوالے سے بدھ 3نومبرکو یہ خبر سہ سرخیوں میں شائع کی ہے کہ بھارت نے افغانستان کو غذائی اجناس بھیجنے کے لیے پاکستان کو ایک منصوبہ پیش کیا ہے تاہم اس حوالے سے بھی پاکستان نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
روزنامہ انڈین ایکسپریس کے مطابق بھارت نے پاکستان کے زمینی راستے سے گندم اور کھانے پینے کی دیگر اشیا افغانستان بھیجنے کی تجویز پیش کی ہے اور تقریبا ًپانچ ہزار ٹرک پاکستان کے راستوں سے جانے کی اجازت طلب کی ہے۔ پاکستان اس تجویز پر ابھی غور کر رہا ہے۔
اخبار کے مطابق اگر بھارتی ٹرکوں کو پاکستان کے زمینی راستے سے جانے کی اجازت نہ ملی تو پھر سرحد سے اٹھا کر پاکستان اس سامان کو افغانستان پہنچائے گا لیکن یہ عمل قدرے مشکل ہو گا۔
چین، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک انسانی امداد پہنچانے کا کام پہلے شروع کر چکے ہیں اور وہ کھانے پینے کی اشیا افغانوں کو تقسیم بھی کر رہے ہیں۔ بھارت بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے، تاہم اس کے پاس پاکستانی راستوں کے استعمال کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو وہ بہت دشوار کام ہے۔