امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) پینٹاگون کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل دینے سے ”دوست ملک کی سلامتی میں بہتری آئے گی۔” صدر بائیڈن کی انتظامیہ میں سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنے کا یہ پہلا معاملہ ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے چار نومبر جمعرات کے روز اعلان کیا کہ سعودی عرب کو تقریبا ً65 کروڑ امریکی ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کے ایک سودے کو منظوری دے دی گئی ہے۔ اس سودے کے تحت امریکا سعودی عرب کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے 280 جدید میزائل فراہم کرے گا۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے اس سودے کو اس لیے منظور کیا ہے تاکہ موجودہ اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے میں ریاض کی مدد کی جا سکے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران، ”سعودی عرب کے خلاف سرحد پار سے حملوں میں اضافہ ہوا ہے” اسی لیے اسے منظوری دی گئی ہے۔
پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا، ”یہ مجوزہ فروخت امریکا کی خارجہ پالیسی اور اس کی قومی سلامتی کو ایک دوست ملک کی سکیورٹی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے گی، جو مشرق وسطیٰ میں سیاسی اور اقتصادی پیش رفت کے لیے ایک اہم قوت ہے۔”
بعض امریکی حلقوں نے سعودی عرب کے ساتھ میزائیلوں کے اس سودے پر اعتراض کیا ہے تاہم امریکی وزارت خارجہ نے اپنی متعدد ٹویٹس میں اس کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ یہ ہتھیار زمینی حملے لیے کے نہیں ہیں اور میزائل صرف فضائی دفاع کے لیے ہیں۔
امریکی وزات خارجہ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا، ”انتظامیہ نے یمن میں جنگ بندی کے خاتمے کے لیے سفارت کاری کی قیادت کرنے کا جو عہد کیا ہے، یہ سودا اس سے پوری طرح مطابقت رکھتاہے۔ تاکہ سعودی عرب کے پاس ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے فضائی حملوں سے اپنے دفاع کے ذرائع موجود ہوں۔”
امریکی ریاست میساچوسیٹس کی ہتھیار بنانے والی کمپنی ریتھیون ایڈوانس قسم کے ‘اے آئی ایم 120 سی/7 سی- 8 درمیانی رینج کے یہ میزائل بناتی ہے جو فضا سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پینٹاگون کے مطابق اسی کمپنی کو یہ ٹھیکہ ملنے والا ہے۔
ہتھیاروں کے فروخت کا یہ سودا ایسے وقت ہوا ہے جب کچھ دن پہلے ہی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ یمن میں سعودی عرب کے حملوں کی حمایت بند کرنے کے ساتھ ہی اسے ہتھیاروں کی فروخت پر بھی روک لگا دے گی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کو ہر طرح کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی تاہم بائیڈن نے اس پالیسی پر نظر ثانی کا اعلان کیا تھا۔ سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے امریکا کو کافی تشویش رہی ہے تاہم دونوں ملک دیرینہ حلیف بھی ہیں۔
سعودی عرب نے سن 2015 میں اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائیاں شروع کی تھیں اور اس کے تحت حوثیوں کے ٹھکانوں کومیزائلوں سے نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔
سعودی عرب اور اس کے بعض مغربی اتحادیوں کا خیال ہے کہ حوثی یمن میں ایران کی در پردہ جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ تہران اس کی تردید کرتا ہے۔ کچھ بھی ہو، تقریباً چھ برس سے جاری اس جنگ کی وجہ سے یمن اس وقت دنیا کے بد ترین انسانی بحران سے دو چار ہے، جہاں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔