پولینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) پولینڈ کا کہنا ہے کہ اس نے سینکڑوں مہاجرین کی بیلاروس سے غیر قانونی طورپر ملک میں داخل ہونے کی کوششیں ناکام کر دیں۔ امریکا اور یورپی یونین نے اس ‘منظم‘ مہاجرت کے لیے منسک کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
نیٹو نے بیلاروس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے پیر کے روز کہا کہ الیکزانڈر لوکاشینکو حکومت مہاجرین کو سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے جبکہ یورپی یونین نے منسک کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔
برسلز کا کہنا ہے کہ لوشینکوانسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کی وجہ سے بیلاروس پر یورپی یونین کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کے انتقام کے طور پر بڑے پیمانے پر مہاجرین کو یورپ میں داخل ہونے کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
پولش حکومت کا کہنا ہے،”مہاجرت کا ایک مصنوعی راستہ بنا کر اور مہاجرین کا جذباتی استحصال کرکے بیلاروس (کے مردآہن الیکزانڈر لوکاشنیکو) پولینڈ، لتھوانیا اور لیٹویا کو غیرمستحکم کرنے اور یورپی یونین پر دباو ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ منسک حکومت کے خلاف عائد پابندیاں ختم کی جا سکیں۔” پولینڈ یورپی یونین اور نیٹو دونوں کا رکن ہے۔
پولینڈ کی وزارت دفاع نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،”وزارت داخلہ کی فورسز اور فوجی سرحد کو پار کرنے کی بڑے پیمانے پر پہلی غیر قانونی کوشش کو روکنے میں کامیاب رہے۔ مہاجرین نے کوزنیسا خطے میں اپنے خیمے نصب کر لیے ہیں۔ بیلاروس کی فوج ان کی مسلسل حفاظت کر رہی ہے۔”
پولش حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ سرحد کے قریب تین سے چار ہزار مہاجرین موجود ہیں۔
پولینڈ کے سرحدی محافظوں نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا ہے جس میں مہاجرین کو سرحد پر لگے ہوئے خاردار تاروں کو کاٹتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے ہے جو جنگ اور غربت سے بچنے کے لیے پولینڈ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ان میں اکثریت عراقی کردوں کی ہے۔ مہاجرین کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اب’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والی حالت ہوگئی ہے۔ بیلاروس انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دے رہا کہ وہ اپنے وطن لو ٹ سکیں جبکہ پولینڈ انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت دینے اور پناہ حاصل کرنے کی اپیل پر غورکرنے سے انکار کر رہا ہے۔
جرمن وزیر داخلہ نے اس بحران کے دوران یورپی یونین سے ”متحد ہوکر کھڑا ہونے” کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا،”ہمیں پولش حکومت کو ان کی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں مدد کرنی چاہئے۔ یہ درحقیقت یورپی کمیشن کا کام ہوگا۔ میں ان سے اپیل کررہا ہوں کہ وہ اقدامات کریں۔”
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے 27 رکنی بلاک سے ”اس ہائبرڈ حملے کے لیے ذمہ دار بیلاروسی حکام” کے خلاف مزید پابندیوں کی توثیق کرنے اپیل کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا،”بیلاروسی حکام کو یہ جان لینا چاہئے کہ مہاجرین کو آلہ کار بنا کر یورپی یونین پر دباو ڈالنے کی ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ مہاجرین کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ناقابل قبول ہے۔”
انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر بھی غور کررہی ہیں کہ مہاجرین کو بیلاروس لانے پر ‘تیسرے ملکوں کی ایرلائنز”پر کس طرح پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
امریکا نے یورپ میں مہاجرین کو لانے میں بیلاروس کی ”منظم کوشش” کی مذمت کی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا،”جب تک بیلاروس اور وہاں کی حکومت بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں کا احترام کرنے سے انکار کرے گی، یورپ اور دیگر ملکوں کی امن و سلامتی کو نظرانداز کرے گی اور اپنے عوام کی آزادی اور حقوق کو کچلتی رہے گی اس وقت تک ہم لوکاشینکو پر دباو ڈالتے رہیں گے اور احتساب کی اپیلوں کو کم نہیں کریں گے۔”
بیلاروس کے عہدیداروں نے پولینڈ پر تصادم بھڑکانے کا الزام لگایا اور کہا کہ پولش فورسز نے ”تحفظ کے لیے گڑگڑانے والے لوگوں پر آنسو گیس کے شیل داغے۔ جس کی وجہ سے بعض مہاجرین فیصلہ کن اقدام پر اترآئے اور انہوں نے پولش رکاوٹوں کو توڑنا شروع کردیا۔”
بیلاروس سرحدی فورس کے ایک اعلی افسر کا کہنا تھا،”یہ تمام افراد بشمول خواتین اور بچے سیکورٹی کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں اور وہ اتنے جارحانہ انداز میں سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔” بیلاروس نے پولیس حکام پرغصے کے عالم میں ”غیر انسانی رویہ” اختیار کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔
پولش روزنامے گزیٹا وائبورزا کے مطابق اس تازہ بحران کے دوران اب تک کم از کم دس مہاجرین کی موت ہو چکی ہے۔ ان میں سے سات پولینڈ کی سرحد کی طرف ہلا ک ہوئے ہیں۔
لوکاشینکو نے اپنی حکومت کے خلاف عائد تمام الزامات کی بھی تردید کی۔