’طالبان سے جنگ بندی کا معاہدہ زخموں پر نمک پاشی ہے‘

Taliban

Taliban

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) آرمی پبلک اسکول حملے میں ہلاک ہو جانے والے بچوں کے والدین نے حکومت کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور عارضی جنگ بندی کے معاہدے کی بھرپور مذمت کی ہے اور اسے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کچھ دنوں پہلے ایک ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت پاکستان تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کر رہی ہے اور افغان طالبان اس میں اسلام آباد کی معاونت کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا ہے، جو ایک مہینے تک قائم رہے گا اور اس کے بعد اس کی تجدید بھی کی جا سکتی ہے۔ بلاول بھٹو سمیت کچھ سیاستدانوں نے اس معاہدے پر نکتہ چینی کی ہے تاہم مسلم لیگ نون اور دوسری سیاسی جماعتیں اس معاہدے پر بظاہر خاموش دکھائی دیتی ہیں۔

تاہم اس معاہدے کی شدت سے مخالفت ان لواحقین کی طرف سے آ رہی ہے، جن کے بچے آرمی پبلک اسکول پشاور میں تحریک طالبان کے حملے میں مارے گئے تھے۔ آرمی پبلک اسکول شہداء فاؤنڈیشن کے صدر افضل خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ مذاکرات کر کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہم اس حکومتی اقدام کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ قربانی ہم نے دی، بچے ہمارے شہید ہوئے، لاشیں ہم نے اٹھائیں، گھر بار ہم نے تباہ ہوتے ہوئے دیکھے، نقصان ہمارا ہوا۔ تو حکومت کس قانون کے تحت ان دہشت گردوں سے بات چیت کر رہی ہیں، جنہوں نے ہمارے بچوں کو ہم سے جدا کیا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ”حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی، غیر آئینی، غیر اسلامی اور روایات کے بالکل خلاف ہے۔ پاکستان کا قانون اور مذہب بھی صرف اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ صرف مقتول کے لواحقین کسی کو معاف کر سکتے ہیں۔ ہم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے، جنہوں نے ہماری دنیا اجاڑ دی۔‘‘
افضل خان کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے پر بالکل آواز نہیں اٹھائی، جس سے اے پی ایس شہدا کے لواحقین کو اور والدین کو سخت افسوس ہوا ہے، ”یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف اپنے مفادات کے لیے لڑتی ہیں اور وہ آئین اور قانون کی پاسداری کے لیے علم بغاوت بلند نہیں کرتی۔ اگر اسی طرح ملک چلانا ہے، تو آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں اور ملک میں جنگل کے قانون کو آنے دیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو ملک میں چلنے دیں۔ اور اگر پاکستانی حکمران ایسا نہیں چاہتے تو پاکستانی آئین اور قانون کے تحت ان دہشت گردوں کو سزائیں دیں۔ جو فوجی عدالتیں بنائی ہیں، ان فوجی عدالتوں میں ان دہشت گردوں کو پھانسی دی جائے اور ان کو قومی دھارے کی سیاست میں لانے کی کوشش نہ کی جائیں۔‘‘

واضح رہے کہ سانحہ اے پی ایس میں افضل خان کے بیٹے صاحبزادے عمر خان، جو صرف ساڑھے چودہ برس کے تھے، کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ افضل خان کا کہنا ہے، ”حکومت ان سے مذاکرات کر رہی ہے لیکن کبھی اس نے یہ ہم سے نہیں پوچھا کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اس نے کبھی ہم سے نہیں پوچھا کہ ہمارے دل پر کیا گزر رہی ہے؟‘‘
آرمی پبلک اسکول میں ڈاکٹر ظہیر عالم کے صاحبزادے بھی مارے گئے تھے۔ ڈاکٹر ظہیر عالم نے انتہائی جذباتی انداز میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سانحہ اے پی ایس کے اصل اسٹیک ہولڈرز والدین ہیں، جن کے بچوں کو بے دردی سے دہشت گردوں نے شہید کیا۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر اسی طرح ہمارے ٹیلی ویژن کے اینکرز، فوجی جرنیل اور سیاستدانوں کے بچوں کو بے رحمی سے شہید کیا جاتا تو کیا پھر بھی وہ مذاکرات کی بات کرتے؟ یہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ہم اس حکومتی فیصلے کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔‘‘

دوسری جانب حکومتی موقف ہے کہ کسی بھی مسلح تحریک سے لڑائی کا کوئی حل نہیں نکلتا اور آخر کار مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم ماضی میں بھی متعدد مرتبہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کر چکے ہیں۔ ان کا دیرینہ موقف یہی رہا ہے کہ مسلح تنازعات کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے۔