عراق (اصل میڈیا ڈیسک) عراق میں سیاسی اور مذہبی کشیدگی بڑھنے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین وجہ عراقی وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر گزشتہ اتوار کو کیا جانے والا ڈرونز حملہ ہے اور اس کی انگلیاں ایران نواز ملیشیا پر اٹھ رہی ہیں۔
عراق میں حالیہ ہفتوں میں عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ پارلیمانی الیکشن اور اس کے نتائج پر ایران نواز گروپوں کے فراڈ کے الزامات اور پھر وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کی رہائش گاہ پر بارود سے لدے ڈرونز حملے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حملے میں وزیر اعظم محفوظ رہے تھے۔
عراقی فوج نے اسے قاتلانہ حملہ اور وزیر اعظم کے دفتر نے اس حملے کو ایک دہشت گردانہ فعل کہا ہے۔ سیاسی تناو کی وجہ پارلیمانی انتخابات میں ایران نواز سیاسی گروپوں کے اتحاد ‘فتح‘ کو ملنے والی شکست ہے اور اس نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس الیکشن میں حشد الشعبی جیسے بڑے سیاسی و عسکری گروپ نے سب سے زیادہ نشستیں گنوائی ہیں۔
عراقی حکومتی اہلکاروں کو یقین ہے کہ ملکی وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر کیا گیا ڈرونز حملہ ایک ایران نواز گروپ کی کارستانی ہے۔ ان اہلکاروں نے اُس گروپ کا نام بتانے سے انکار کیا ہے۔ عراقی سلامتی کے اداروں کا کہنا ہے کہ عراق کے ہمسایہ ملک ایران کی جانب سے سات نومبر کو کیے گئے حملے کی پشت پناہی کا امکان بہت ہی کم ہے لیکن اندرونِ عراق سرگرم ایران نواز گروپوں میں سے کسی ایک نے یہ کارروائی کی ہے۔
دوسری جانب کم از کم دو عراقی حکومتی اہلکاروں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ملکی وزیر اعظم پر ڈرونز حملے میں کتائب حزب اللہ یا عصائب اہل الحق نامی گروپوں میں سے ایک ملوث ہے۔ ان دونوں گروپوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ کتائب حزب اللہ نے ڈرونز حملے کے کچھ گھنٹوں بعد حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ تین دن گزرنے کے بعد بھی کسی ایران نواز گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
عراقی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتوار کے حملے کے بعد عراقی دارالحکومت میں خوف اور کشیدگی کی فضا پھیل گئی ہے۔ پیر آٹھ نومبر سے شہر کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں کیونکہ لوگوں میں یہ ڈر پیدا ہو گیا ہے کہ ایران نواز سیاسی و عسکری گروپوں کی جانب سے سنی اور حکومت نواز شیعہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت بغداد کے چوراہوں پر سکیورٹی اہلکاروں نے ناکے لگا رکھے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تناؤ کو فی الحال ڈھانپ دیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں شکست کے بعد دوسرے سیاسی دھڑے حکومت سازی کے لیے مذاکرات میں شریک ہیں۔ رواں برس کے پارلیمانی انتخابات میں شعلہ بیان شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور انہیں مذاکراتی عمل میں کئی سنی اراکینِ کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن فتح الائنس کا کوئی رکن شامل نہیں ہے۔
برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس سے وابستہ ریسرچر ریناد منصور کا کہنا ہے کہ ایران نواز حشد الشعبی عراقی سیاست میں قدم جمانے کے لیے طاقت و تشدد کی سیاست پر اتر آئی ہے کیونکہ حکومت سازی کے عمل سے وہ باہر ہو چکے ہیں۔ بیلجیم میں قائم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے محققق لاہب ہجل کا خیال ہے کہ ایران نواز گروپوں نے حکومت کی تشکیل کے مذاکرات کو متاثر کرنے کے لیے اب منفی ہتھکنڈوں کا سہارا لے لیا ہے۔
عراق کے ممتاز علمی خاندان سے تعلق رکھنے والے مقتدیٰ الصدر ایران نواز گروپوں کے مخالف ہیں۔ وہ ایرانی حمایت یافتہ سیاسی و عسکری گروپوں کے مقابلے میں عراقی قومیت کا پرچار کرتے ہیں۔ الصدر ہر قسم کی بیرونی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں خواہ وہ امریکی ہو یا ایرانی۔
واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک سے منسلک عراقی شیعہ ملیشیا پر گہری نگاہ رکھنے والے حامدی مالک کا کہنا ہے کہ ایران نواز ملیشیا کے حملے میں شریک ہونے کا مطلب یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مقتدیٰ الصدر کے خلاف پوزیشن سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مالک کے مطابق الصدر کے گروپ کا انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنا اور ان کا حکومت میں آنا یقینی طور پر ایرانی مفادات پر ایک ضرب ہو گی اور تہران اس کی مخالفت بھی کرے گا۔
مالک کا یہ بھی خیال ہے کہ ایران نواز عراقی گروپوں کو یہ احساس ہے کہ مصطفیٰ الکاظمی اور الصدر بشمول سنی و کرد اقلیت حقیقت میں ایران کے ‘سب سے بڑے دشمن‘ امریکا کے کسی حد تک حلیف ہیں۔