بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بنارس ہندو یونیورسٹی نے آن لائن سیمینار کے پوسٹر پر علامہ اقبال کی تصویر استعمال کرنے کی تفتیش کا حکم دیا ہے۔ شعبہ اردو کے سربراہ کو متنبہ کیا گيا ہے، جس کے بعد انہوں نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی طلب کی ہے۔
شمالی بھارت کی معروف بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں نو نومبر منگل کے روز یوم اردو کی مناسبت سے ایک آن لائن سیمینار تھا، جس کے لیے منتظمین نے شاعر مشرق کہلائے جانے والے علامہ اقبال کی ایک تصویر استعمال کی۔ نو نومبر کے دن ہی اقبال کا یوم پیدائش بھی ہوتا ہے اور اسی مناسبت سے اردو کے پروگرام میں عموماً اقبال کی تصویر استعمال بھی ہوتی ہے۔
لیکن بھارت میں سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ طلبہ تنظیم ‘اکھل بھارتی ودھارتی پریشد’ (اے بی پی) کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ سیمینار کے پوسٹر پر یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ کی تصویر کے بجائے اقبال کی تصویر کیوں لگائی گئی۔ تنظیم نے اس پر ہنگامہ کیا اور اس طرح شاعر محمد اقبال کی تصویر کو ہٹا دیا گیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اس حوالے سے شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر آفتاب احمد کو متنبہ کرتے ہوئے ایک وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے اور اس پورے معاملے کی تفتیش کا حکم دیا گیا ہے۔ تفتیش کرنے والی کمیٹی کو تین دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس دوران پروفیسر آفتاب نے واقعے پر معذرت پیش کرتے ہوتے کہا ہے کہ ان کا مقصد کسی کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔
بہرحال آن لائن سیمینار شاعر اقبال کی تصویر کے بغیر ہوا۔ اس سیمینار میں شامل ایک طالب علم نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ ویبینار تو ہو گیا تاہم یونیورسٹی میں اس حوالے سے اب بھی ہنگامہ جاری ہے اسی لیے وہاں میڈیا کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
اس حوالے سے شعبہ اردو سے رابطے کی ڈی ڈبلیو کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں، تاہم بھارتی میڈیا میں پروفیسر آفتاب احمد کے بعض بیانات ضرور شائع ہوئے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت میں بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد اقبال پاکستان چلے گئے تھے جبکہ،’’اقبال کا انتقال تقسیم سے کافی پہلے سن 1938 میں ہی ہو گیا تھا۔ ہم اقبال کے بارے میں ایک شاعر اور ادیب کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں، جنہوں نے ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستان’ جیسا قومی ترانہ لکھا تھا۔”
ان کا کہنا تھا کہ ان کی شاعری کے بارے میں تو ہندی یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ “ولیم شیکسپیئر کو پڑھ کر کوئی برطانوی نہیں بن جاتا ہے۔ اقبال نے تو اپنی شاعری میں بھگوان رام کو امام ہند کہا ہے۔”
اقبال کا ترانہ ہندی’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا’ بھارتی پارلیمان میں بھی گایا جاتا ہے اور بہت سے رہنما کئی بار اپنے خطاب میں ان کے اشعار کو استعمال بھی کرتے ہیں۔ تاہم سخت گیر ہندو تنظیمیں ان کو پاکستان نواز سمجھتے ہیں اور انہیں پسند نہیں کرتے۔
آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم نے اس حوالے سے یونیورسٹی کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے جس میں کہا گيا ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں پاکستانی رہنما کی قصیدہ خوانی قابل افسوس بات ہے۔ تنطیم کے مطابق، “سب سے زیادہ اعتراض اس بات پر ہے کہ اقبال کی تصویر کیوں استعمال کی گئی جو پاکستان کے بانیوں میں ایک ہیں۔”
بھارت کی ایسی ہندو تنظیمیں عام طور پر اردو کو بھی مسلمانوں کی زبان کہتی ہیں اور ان کے نزدیک اردو ہندوؤں کی تہذیب کی عکاس نہیں ہے۔ ہندو تنظیمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر رکھنے پر بھی کئی بار اعتراض کر چکی ہیں اور اس پر بھی کافی ہنگامہ ہو چکا ہے۔
مبصرین کے مطابق بھارت میں پہلے اس طرح کے متنازعہ مسائل پر اہل علم میں سنجیدہ بحث ہوا کرتی تھی تاہم اب حال یہ ہے کہ سخت گیر ہندو تنظیمیں اس معاملے پر بحث و مباحثے کے بجائے زبردستی اپنی رائے تھوپنے کے لیے ہنگامہ آرائی کرتی ہیں اور چونکہ بھارتی حکومت بھی اسی نظریے کی حامل ہے، اس لیے اکثر و بیشتر ہندو تنظیمیں اپنے مشن میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔