بھلا ہومحمد ضیغم مغیرہ سر پرست داہرہ علم ادب پاکستان اور چیئرمین غزالی گروپ آف سکولز اینڈ کالج پھالیہ کا،کہ جنہوں ددوسری کل پاکستان اہل قلم کانفرنس بمقام غزالی کمپلکس پھالیہ بتاریخ ٦اور٧ نومبر ٢٠٢١ء ی میز بانی کرتے ہوئے پورے پاکستان سے تقریباً ٢٥٠ اہل علم کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور میزبانی کا شاندار حق ادا کر دیا۔ پنڈال میں ہر فرد ان کی مہمان نوازی کی دل کھول کر تعریف کر رہا تھا۔سارے پاکستان سے اہل قلم کے قافلے پھالیہ پہنچے۔ ١٢ بجے تا ٣ بجے سہ پہر مہانوں کا استقبال اوران کا انداج ، طعام و آرام کا وقت تھا۔ کچھ قافلوں کے دیر سے آنے کی وجہ سے پروگرام عصر کی نماز کے بعد شروع ہوا۔
کل پاکستان اہل قلم کانفرنس کی افتتاحی تقریب ڈاکٹر احسن حامد کی نظامت میں شروع ہوئی۔ ڈاکٹر احسن حامد کی ہی قیادت ہم اسلام آباد اور کشمیر والے اہل قلم کا قافلہ پھالیہ پہنچا ۔ تلاوت قرآن پاک قاری غلام ابوبکر نے کی۔نعت رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد شفیع شاہین نے پیش کی۔استقبالیہ کلمات محمد ضیغم مغیرہ نے اداکیے ۔ پہلی نشست ٦ نومبرکو ڈاکٹر افتخار برنی کی نظامت میں”تعمیری ادب تشکیلی عناصر” ہوئی۔انہوں ے کہا کہ ادب تو ادب ہے اسے غیر مسلموں نے بھی وسعت دی ۔ اس میں تعمیری اور غیر تعمیر کیاہے؟ خلیل الرحمان چشتی نے سیر حاصل اور تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں ے ایک مثال سے حاضرین کو بتایا کہ ایک مکھی شہد کی ہے وہ پھلوں کا رس چوس کر شہید بناتی ہے جو انسانیت کے فاہدے میں ہے۔ جسے قرآن نے بھی شفا کہا ہے۔
ایک اور مکھی ہے جس کا کام ہی غلاظت پر بیٹھنا ہے اور غلاظت کوپھیلانا ۔ بس کام دنوں کر رہی ہیں۔ مگر اس میں انسانیت کے فاہدے کا کام شہید کی مکھی کر رہی ہے اور معاشرے کے بگاڑ کا کام غلاظت پر بیٹھنے والی مکھی کر ہی ہے۔ ایسے ہی ادب کو بھی سمجھ لیں۔ کچھ ادیب معاشرے کے فاہدے کا ادر تخلیق کررہے اور کچھ ادیب معاشرے کو نقصان پہنچانے والا ادب تخلیق کرتے ہیں۔ ١٩٣٥ء میں انجمن ترقی پسند ادب کا قیام ہوا۔ اس نے غلاظت پھیلائی اور اس کے بعد اس کے مقابلے میں تعمیری ادب کی تشکیل ہوئی۔ ادب میں جمالیات اور معاشرے کو اس کے اصلی رنگ میں پیش کرنے نام ادب ہے۔علم کیا چیز ہے۔ہم انسانیت کو کیا دینا چاہتے ہیں۔ تکلیف اور خوشی کو بیان کرنا ادب ہے۔ ادب میںمقصد کو پیش کرنا چاہیے۔غیر مسلم ادب حقیقت نہیں کیونکہ اس وہ وحی سے انکاری ہے۔ علم نام ہے خود شاناسی کا خدا شناسی کا۔ علم نافع اسلام نے سکھایا۔ مسلمانوں نے علم نساب ایجاد کیا۔ پانچ لاکھ لوگوں کی زندگی کے حالت کو قلم بند کیا۔ اس کے بعد وقفہ برائے نماز مغرب ہوا۔
دوسری نشست عطامحمد تبسم کی نظامت میں ہوئی ۔اس میں ڈاکٹر فخر الاسلام پشاور، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر راوالاکوٹ، شیخ فر ید کوئٹہ ،داکٹر اعجاز فاروق اکرام فیصل آباد اور محمد افضل رائید کراچی سے آئے ہوئوں نے اپنی اپنی خیالات کا اظہار کیا۔فخرالاسلام نے علاقائی ادب کے اُردو ترجمہ پر زور دیا۔ظفر حسین ظفر نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے چلینج کے پس منظر میں تعمیری ادب کی تشکیل نو پر زور دیا۔ انہوں نے کہا اقبال اس دور میں تعمیری ادب کا بڑا حوالہ ہے۔ جبکہ انسانیت اور ہومنزم کے نام پر عالمی استعمار اور غیر ریاستی تنظیمیں مسلم تشخص پر حملہ ااور ہو رہی ہیں۔شیخ فرید نے بلوچوں کی نمایندگی کرتے ہوئے کہا کہ کرونا کے بعد مار پیٹ اور بچوں میں تشدد کا عنصر اور والدین کے اندر افراط زر کے سبب بڑھا ہے۔ ہمیں بچوں کے لیے سمعی بصری آلات کو استعمال میں لا کر ادب تخلیق کنا چاہیے۔اعجاز فاروق نے کہا کہ ادب کو نظریے کا حامل ہونا چاہیے۔ ھجو گائی جاہلی ادب ہے۔ اسلام قبول کر کے حسان بن ثابت نے اس صنف کو رسول اللہ ۖ کے دفاع اور اسلام کے ابلاغ کے لیے استعمال کیا۔
اس پروگرام کے بعد عبیداللہ کیہر کی ادبی شہ پارہ نظم شکوہ پر بنائی ہوئی اپنی ویڈیو شرکاء کے سامنے پیش۔ اس کو عرب دنیا کی گلوکارہ ام کلثوم اور پاکستان کی ٹینا ثانی نے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔جس کی شرکاء سے داد وصول کی۔اس کے بعد وقفہ برائے نماز اور شرکا ء عشائیہ میں شریک ہوئے۔
تیسری نشست” کل پاکستان مشاعرہ”کاشف ندیم آغر، عبدالرحمان شاکر اور توقیر احمد کی مشترکی نظامت میں ہوئی۔ صدارت عباس تابش کی ۔اس میں لسٹ کے مطابق اسی (٨٠)سے زاہد شاعر تھے ۔ نظامت کرنے والوں نے شعرء سے درخواست کی کہ ہم کسی کو بھی شعر پڑھنے سے روک نہیں سکتے تھے۔ طویل لسٹ یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہر شاعر صرف تین اشعار پر ہی پڑھے۔
چوتھی نشست ”ادب اطفال۔۔۔ عصری تقاضے ”بلال بشیر کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ صدارت ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے کی۔مقررین میں جنٹلمین استغفراللہ کے کرنل اشفاق احمد خان اور ڈاکٹر افضل حمید نے اس پر روشنی ڈالی۔ کرنل نے فوجی مزاح پیش کر کے محفل لوٹ لی۔مقررین نے بتایا کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا کوئی کھیل نہیں۔ ہر قوم کی اپنی ترجیحات ہوتیں ہیں۔ آیندہ نسلوں کی تربیت کس طرح کرنا چاہیے یہ حکومتوں کے کرنے کا کام ہے۔بوڑھیوں کی لوریاں او ر بزگوں کی کہانیوں کو ریکارڈ کر کے بچوں کو سنانا چاہیے۔ (اسی دوران خواتین اہل قلم اور نثر نگاروں کے احترام میں متوازی اجلاس رکھا گیا)
پانچویںنشست ”ادب کی گمشدہ کہاکشان” کی نظامت مظہر دانش نے کی۔ اس نشست کی صدارت خلیل الرحمان چشتی نے کی۔اس کے مقررین ڈاکٹر ساجد خان خاکوانی اور محمد ضیغم مغیرہ تھے۔ پروفیسرڈاکٹر ساجد خان خاکوانی بوجہ علالت اس کانفرنس میں شریک نہیں ہو سکے ۔ اس کی تحریر سید اسد گیلانی اور ماہر لقادری دوسرے صاحب نے پڑھ کر سنائی۔ محمد ضیغم مغیرہ نے اپنی تقریر میں ادب پر مفصل روشنی ڈالی۔ صدارتی تقریر میں خلیل الرحمان چشتی نے سیر حاصل بحث کی۔اس کے بعد وقفہ برامفرحات ہوا۔
چھٹی نشست ”پاکستان ادب کے ٧٥ سال” ڈاکٹر ریاض عادل کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ اس نشست کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف خشک، چیئر مین اقادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد نے کی۔ اس نشست کے مقرین پروفیسر ریاض قادری اور اختر رضا سلیمی تھے۔
اس کے بعد وقفہ برائے نماز ظہر اور ظہرانہ تھا۔ اختتامی نشست کی نظامت احمد حاطب صدیقی نے کی۔اس نشست کی صدارت پروفیسرڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر رفا انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آبادنے کرنی تھی۔ مگر وہ اسلام آباد میںایک ضروری مصروفیت کے وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔مہمان خصوصی محمد عبدالشکور صدر الخدمت فائونڈیشن پاکستان تھے۔ منتخب شرکاء کانفرنس نے اپنے اپنے تاثرات اور تجاویز پیش کی۔اس سیشن میں قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ کلیدی خطاب” پاکستان معاشرے کے مسائل اور اہل ِ قلم کا کرداد” پروفیسر ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی چیئر مین گیلپ پاکستان نے کیا ۔صدارتی خطاب ڈاکٹر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ہی نے کرنا تھا۔ مگر جیسا کی بیان کیا گیا کہ اسلام آباد میں ایک ضروری مصروفیت کی وجہ سے اس کل پاکستان اہل قلم کانفرنس میں شرکت نہیں کر سکے ۔مہمان خصوصی محمد ضیغم مغیرہ نے آخر میں اظہار تشکر اور دعا ء کی۔ پھر اس کے بعد اہل قلم کے قافلے اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہو گئے۔