گلاسگو (اصل میڈیا ڈیسک) گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں تحفظ ماحول کے لیے ایک معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ معاہدے کے مسودے میں بھارتی ایما پر کی گئی تبدیلی کے تناظر میں اس معاہدے کو ‘سمجھوتوں پر مبنی اور ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہفتے تیرہ نومبر کی رات کو اختتام پذیر ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس COP26 میں تقریبا دو سو ملکوں نے ایک معاہدے کو حتمی شکل دی۔ معاہدے کے مسودے میں دنیا کے درجہ حرارت کو محدود رکھنے سے متعلق پہلے سے طے کردہ ہدف کا تعاقب جاری رکھنے کا تو کہا گیا ہے مگر کوئلے سے توانائی کے حصول سے متعلق بھارت کی جانب سے کردہ تبدیلی پر کافی تنقید جاری ہے۔ کوئلے کا استعمال ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ شرکا اسے ختم کرنا چاہتے تھی لیکن آخری لمحات میں بھارت نے معاہدے کے مسودے میں ترمیم کرائی اور اسے ‘کم کرنے کا ہدف مقرر کرایا۔
مبصرین کی رائے میں گو کہ شریک ملکوں نے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں مگر کئی اہم معاملات اور مسائل غور طلب ہیں۔ اکثریت کی رائے ہے کہ تازہ معاہدہ دنیا کو کسی ماحولیاتی سانحے سے بچانے کے لیے ناکافی ہے۔ ملکوں نے ذاتی و قومی سطح کے مفادات اور سیاسی و اقتصادی امور کو دنیا اور ماحول کے وسیع تر مفاد پر ترجیح دی۔ یوں وہ اہداف نہ طے کیے جا سکے، جن سے زمین کے ماحول کا تحفظ ممکن ہو سکے۔
گلاسکو کی اس کانفرنس سے قبل اقوام متحدہ نے کامیابی کے لیے تین چیزوں کی نشاندہی کی تھی، جن میں سے ایک بھی حاصل نہ کی جا سکی۔ اقوام متحدہ چاہتی تھی کہ 2030 تک کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں پچاس فیصد کمی پر اتفاق ہو، امیر ملک غریب ملکوں کو سالانہ ایک سو بلین ڈالر ادا کریں اور یہ کہ ان رقوم کا نصف حصہ، ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مدد کے لیے دیا جائے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کسی موسمیاتی سانحے سے خبردار کیا ہے۔ ہفتے کو معاہدے کے اعلان کے بعد انہوں نے اپنا ایک بیان جاری کیا اور ان سمجھوتوں پر روشنی ڈالی، جو معاہدے تک پہنچنے کے لیے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ڈیل ایک اہم قدم تو ہے مگر یہ کافی نہیں۔ گوٹیرش کے مطابق، ”ہماری دنیا ایک دھاگے سے لٹک رہی ہے۔ موسمیاتی یا ماحولیاتی سانحے کا خطرہ اب بھی حقیقی ہے۔
تحفظ ماحول کے لیے سرگرم معروف سویڈش رضاکار گریٹا تھونبرگ نے اسے بیکار قرار دیا اور کہا کہ اصل کام کانفرنس کے حال سے باہر ہو رہا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ مستقبل قریب میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ ”البتہ اس ضمن میں تازہ معاہدہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہم نے کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کے لیے پہلی مرتبہ عالمی سطح پر سمجھوتہ کیا اور درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری تک محدود رکھنے کے لیے ایک روڈ میپ تک پہنچے۔
یورپی کمیشن نے سمجھوتے کو ایک موقع سے تعبیر کیا۔ کمیشن کی صدر اروزلا فان ڈیئر لائن کے بقول بڑے اہداف حاصل نہ ہو سکے مگر شرکا نے ان تک پہنچنے کے لیے یقین دہانیاں کرائی ہیں۔