سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ماحولیات سربراہی کانفرنس کوپ 26 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ ہم اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ناکامی دنیا کی آبادی کو تباہ کر دے گی۔انھوں نے کہا پیرس کلائمٹ ایگریمنٹ کے بعد کے یہ 6 سال ریکارڈ پر 6 گرم ترین سال رہے ہیں، ہم حیاتیاتی تنوع کا وحشیانہ استعمال کر رہے ہیں، کاربن سے خود کو مار رہے ہیں، ہمارا سیارہ ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہا ہے، گلیشیئرز کے پگھلنے سے لے کر شدید موسمی واقعات تک، سطح سمندر میں اضافہ 30 سال پہلے کی شرح سے دوگنا ہے، سمندر پہلے سے کہیں زیادہ گرم ہیں، اور ایمازون رین فورسٹ کے حصے اب کاربن جذب کرنے سے زیادہ اسے خارج کرتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا اس سلسلے میں جی 20 کی بڑی ذمہ داری بنتی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں انسانیت کو بچانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ کوپ 26 کا مقصد دنیا کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کا سدِباب کرنا ہے۔
دراصل ترقی کی دوڑ، دنیا کو انسانی حیات کے لیے تیزی سے غیرمحفوظ بناتی جارہی ہے۔اس دنیا کی زمین اور فضا اس بری طرح آلودہ ہوگئی ہے کہ بے موسم برسات، سیلاب، خشک سالی ، سونامی اور طرح طرح کی قدرتی آفات اور بیماریاں انسانوں کو نگل رہی ہیں۔ دنیا کے 40سب سے آلودہ شہروں میں 37جنوب ایشیائی ممالک میں ہیں۔ 2019ء کی ایک رپورٹ میں پایا گیا کہ دنیا کے 30سب سے آلودہ شہروں میں سے 21 صرف بھارت میں ہیں۔ 2015ء میں اقوام عالم نے ماحولیاتی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے پر اتفاق کیا تھا۔ پیرس معاہدے کے تحت موجودہ موسمیاتی درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری اضافے تک محدود رکھنے پر عالمی برادری نے رضامندی ظاہر کی تھی۔
ابھی تک فوسل فیول کے جلانے میں کمی اور سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے چند دوسرے اقدامات پر کسی حد تک عمل کیا گیا۔ یہ نہایت اہم ہے کہ ماحول میں بڑھتی حدت کو کم کرنے سے لاکھوں انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ زمین بردگی کے وسیع سلسلے کو روکنا ممکن ہو گا تاکہ ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار جنگلی و آبی آبی حیات کو بچایا جا سکے گا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا تھاکہ زمین کے درجہ حرارت میں 1.07 سنٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق ابھی درجہ حرارت ایک ڈگری سے کچھ اوپر گیا ہے اور اس کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اس سے زیادہ ہونے پر کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ انٹر گورنمنٹل پینل برائے کلائمیٹ چینج کے مطابق اس وقت سمندر کی سطح 20 سینٹی میٹر (قریب آٹھ انچ) بلند ہو چکی ہے۔ اب سمندر کی سطح مزید بلند ہوئی تو لاکھوں جانوں کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ اس کی مثال خطے میں آنے والے سیلاب ہیں، جن کی وجہ سے نشیبی علاقوں کے ہزروں مکینوں کو بے گھری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماحولیات پر نگاہ رکھنے والی ویب سائٹ ایک تجزیاتی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک سمندروں کی سطح 48 سینٹی میٹر بلند ہو سکتی ہے اور یہ بھی تب اگر درجہ حرارت کو ایک ڈگری تک برقرار رکھا۔ بصورتِ دیگر دو ڈگری بلند ہونے کی صورت میں سمندری سطح 56 سینٹی میٹر بلند ہو جائے گی۔ صنعتی انقلاب سے قبل شدید بارشیں ہر 10 برس بعد دیکھی جاتی تھیں لیکن اب یہ ہر سال کا سلسلہ بن کر رہ گیا ہے۔ بارشوں کی سالانہ اوسط 30 فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق مزید درجہ حرارت بڑھا تو بارشوں کی سالانہ اوسط میں 50 فیصد کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں سیلابوں میں بھی یقینی اضافہ ہو گا جو انسانوں کی بے گھری اور ہلاکتوں کا سبب بنے گا۔ مون سون کے علاوہ دوسری بارشوں سے مٹی کے تودے زیادہ گریں گے اور سیلابوں سے عام انسانوں کی زندگیاں دوبھر ہو کر رہ جائیں گی۔ کرہ ارضی پر درجہ حرارت بڑھنے سے جہاں کچھ علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوں گی تو کسی دوسرے حصے کے علاقے بارش کو ترسیں گے۔ بارشوں کے نہ ہونے سے ان علاقوں میں خشک سالی بڑھے گی اور بستیوں میں خاک اڑنا شروع ہو جائے گی۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 2019 ء میں وسطی امریکی اقوام کے ایک علاقے میں بارشوں کے نہ ہونے سے وہ ڈرائی کوریڈور’ یا خشک راستہ بن کر رہ گیا تھا اور اس علاقے میں فصلوں کی بہت بڑی تباہی دیکھی گئی تھی۔ اس خشک سالی کے سنگین معاشی اثرات نمودار ہو چکے ہیں۔ اسی خشک سالی کے پہلو میں سینٹرل امریکا کو نومبر 2020 ء میں دو سمندری طوفانوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
خشک سالی، کم بارشیں، سیلاب اور سمندری طوفانوں کے ساتھ ساتھ کیلیفورنیا سے جنوبی یورپ اور انڈونیشیا سے آسٹریلیا میں تیز ہواؤں اور گرمی کی شدید لہر سے جنگلوں میں لگنے والی آگ نے بھی بے بہا معاشی و معاشرتی نقصانات کیے ہیں۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ درجہ حرارت کے بڑھتے عمل پر قابو نہ پایا گیا تو شدید گرمی کی لپیٹ میں آنے والے انسانوں کی تعداد 420 ملین ہو جائے گی۔ بظاہر ماحولیات کے حوالے سے یا درجہ حرارت بڑھنے کے اعداد و شمار چھوٹے اعداد دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے وسیع اثرات کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔گلاسگو میں جب امریکی صدر جو بائیڈن تقریر کے لیے سٹیج پر گئے تو انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ دنیا کو ایک بات باور ضرور کرائیں گے۔وہی بات جو انھوں نے روم میں جی 20 کی پریس کانفرنس میں باور کرائی تھی۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں امریکی لیڈرشپ ماحولیات کے تحفظ کے لیے 555 ارب ڈالر کی خطیر رقم کو مختص کرنے سے متعلق ایک مسودہ قانون امریکی کانگریس کے سامنے زیر غور ہے۔
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں اشارتاً اس کا ذکر بھی کیا۔امریکہ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی حکومت نے اتنی خطیر رقم عالمی حدت کو کم کرنے کے لیے مختص نہیں کی۔ اس رقم کو شفاف ذرائع سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔لیکن یہ مسودہ قانون ابھی منظور نہیں ہو سکا ہے اور یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ صدر بائیڈن اس کی منظوری کے لیے کانگریس میں مطلوبہ حمایت حاصل کر پائیں گے۔اس مسودہ قانون پر پیش رفت میں رکاوٹ ایوان صدر کے لیے انتہائی پریشان کن تھی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ صدر بائیڈن کے ‘جی ٹوئنٹی’ ملکوں کے اجلاس میں شرکت کے لیے روم پہنچنے سے قبل یہ قانون منظور کر لیا جائے۔