ووہان (اصل میڈیا ڈیسک) سن 2021 کے لیے پریس فریڈم ایوارڈز حاصل کرنے والوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پریس فریڈم ایوارڈز کورونا وائرس کو رپورٹ کرنے والی چینی صحافی، انویسٹیگیٹو کنسورشیم اور فلسطینی خاتون رپورٹر کو دیے گئے ہیں۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے پریس فریڈم ایوارڈز برائے سال 2021 کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پریس فریڈم ایوارڈز دینے کا سلسلہ سن 1992 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس ایورڈ کا مقصد صحافیوں کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا اعتراف کرنا ہے۔ یہ ایوارڈ ان جرنلسٹس کے لیے بھی وقف کیا گیا، جن کی شاندار صحافیانہ ذمہ داریاں آزادئ صحافت کے وقار میں اضافے اور تحفظ کا سبب بنتی ہیں۔
دسمبر سن 2019 میں ایک پراسرار وائرس چین کے شہر ووہان میں پھیلنا شروع ہوا۔ اُس وقت کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ یہ وائرس افزائش پا کر عالمی وبا بن جائے گا اور لاکھوں انسانوں کی موت کا بھی سبب بنے گا۔ ایک ماہ بعد تئیس جنوری سن 2020 کو ووہان میں پوری طرح لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا۔
فروری سن 2020 کو چین کے مالیاتی مرکز شنگھائی سے ایک آزاد صحافی ژانگ ژان ووہان کے سفر پر روانہ ہوئیں تا کہ وہ حقیقت کو جان پائیں۔ ان کے اس سفر اور مرتب کردہ رپورٹس کو صحافیوں کی تنظیم نے ”جرنلسٹک کرج‘‘ یا صحافتی بہادری کی کیٹیگری میں شمار کیا اور انہیں رواں برس کے ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا۔
اڑتیس سالہ ژانگ ژان کی رپورٹ سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں عام ہوئی تھی۔ اس میں ووہان کے مریضوں سے بھرے ہسپتالوں کا احوال اور لاک ڈاؤن میں پھنسی زندگی کو بیان کیا گیا۔ وہ ووہان میں مقیم ہو کر رپورٹنگ کرتی رہیں اور پھر چودہ مئی سن 2020 کو اچانک لاپتہ ہو گئیں۔
بعد میں معلوم ہوا کہ چینی حکام نے انہیں گرفتار کر کے واپس شنگھائی کی ایک جیل میں پہنچا دیا تھا۔ وہ کئی دن جیل میں بغیر کسی الزام کے قید رکھی گئیں۔ چینی عدالت نے دسمبر سن 2020 میں انہیں چار برس کی سزا سنا دی اور عدالت میں ﺍستغاثہ نے ژانگ ژان پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ جھگڑا کرنے کے علاوہ اشتعال انگیزی کی مرتکب ہوئی ہیں۔
انہوں اس سزا کے دوران ایک مرتبہ پھر بھوک ہڑتال شروع کر دی، جو اب تک جاری ہے۔ انہیں خوراک کی نالی کے ساتھ زبردستی معدے میں کھانا پہنچایا جاتا ہے۔ ان کا وزن چالیس کلوگرام کم ہو چکا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ ژانگ ژان ایک وکیل بھی ہیں اور ہانگ کانگ میں ستمبر 2019ء کو اظہارِ یکجہتی کی ریلی میں حصہ لینے کی بنیاد پر جیل میں ڈال دی گئی تھیں، جہاں انہیں پینسٹھ ایام کے بعد اس لیے رہا کر دیا گیا کہ انہوں نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔
پیگاسس پراجیکٹ صحافیوں کا ایک بین الاقوامی کنسورشیم ہے اور اس میں گیارہ ملکوں کے اسی صحافی شامل ہیں۔ یہ کئی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والا ادارہ ہے۔ اسے بھی رواں برس پریس فریڈم ایوارڈ دیا گیا۔
صحافیوں نے کنسورشیم کا نام ایک اسرائیلی کمپنی کے تیارکردہ جاسوسی کے پروگرام پیگاسس سے مستعار لیا۔ یہ پروگرام مختلف ممالک کی سکیورٹی ایجنسیوں نے دہشت گردی اور حکومت مخالفین کی نگرانی کے لیے بھی خریدا۔ ان میں سعودی عرب، بھارت اور ہنگری بھی شامل ہیں۔ میکسیکو کی حکومت صحافیوں کی نگرانی کے لیے پیگاسس پروگرام کو استعمال کرتی رہی ہے۔
پراجیکٹ کنسورشیم کے صحافیوں نے اس سافٹ ویئر بابت حیران کن تفصیلات پر مبنی ایک رپورٹ عام کی۔ اس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں دو سو میڈیا پروفیشنلز کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ رپورٹز وِدآؤٹ بارڈرز جرمنی کے ڈائریکٹر کرسٹیان میہر نے اس سافٹ ویئر پر مکمل بین الاقوامی پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطین کی صحافی خاتون مجدولینا حسینہ کوئی اجنبی نہیں کیوں کہ ان کی ناقدانہ رپورٹس عالمی شہرت کا باعث ہیں۔ ان کی وجہ سے انہیں اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے قہر کا بھی سامنا ہے۔
مجدولینا حسینہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیل پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب پر تنقید کی اور اسی طرح فلسطینی اتھارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ اس کے اہلکاروں میں پائی جانے والی کرپشن کو ظاہر کیا تھا۔ حسینہ کے مطابق دونوں اطراف سے انہیں ٹارگٹ کر کے نقصان پہنچایا گیا اور الزامات بھی عائد کیے گئے۔
سن 2015 میں انہوں نے ترک ٹیلی وژن ٹی آر ٹی میں ملازمت بھی اختیار کی۔ قبل ازیں وہ فلسطینی نیوز ایجنسیوں کے ساتھ بھی وابستہ رہیں تھیں۔ ان کو اسرائیلی خفیہ ادارے کی پابندی کا بھی سامنا ہے اور اس باعث وہ صرف ویسٹ بینک میں محدود ہو کر رہ گئی ہیں لیکن ایک صحافی کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔