محترم قارئین! درد دل طرب و کرب کی حالت میں قلم طراز ہوں ہم نے بابائے قائد اور اقبال کے افکار و نظریات و فرمودات کی دھجایاں بکھیر دی ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں عوام کے ساتھ ڈاکٹرز کا ہتک امیز رویہ جیسے ہم نے بیمار ہو کر گناہ کر لیا ہے اور زندگی کی تمام چھوٹی بڑی لغزشوں کی سزا یہ میسحا ہمیں یہاں ہی حساب برابر کر کے بھیجیں گے۔ وطن عزیز کی آبادی تقریبا 20کروڑ سے تجاویز کر گئی مگر ہسپتالوں کی تعداد سیاسی حکمتوں کو ناکافی نہیں لگتی۔ سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی کا نظام انتہائی ناقص کہ فرسٹ ایڈ بھی میسر نہیں ہے بیشتر ہسپتالوں میں بیڈ کی اتنی قلت ہے کہ ایمرجنسی میں بھی ایک بیڈ پر 3مریض لٹائے ہوتے ہیں اور جب تک اپکے پاس کوئی اچھی سفارش نہ ہو کوئی دیکھنے نہیں آتا اور اگر اپنے فکرمندی سے کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب مریض کی طبعیت بگڑ رہی ہے تو ڈاکٹر صاحب جو ہنسی مذاق میں مصروف موبائل پر گپ شپ لگاتے ہوئے کھا جانے والی نظروں سے آپ کو دیکھیں گے اور نرسنگ عملہ سے کہیں گے اسے یہاں کس نے آنے دیا۔لواحقین جتنا خوفزدہ ہو کر ڈاکٹر ز کو لاچاری میں گزارش کرتے ہیں اتنی ہی بہیمانہ، تندو تیز رویہ سے وہ ڈاکٹرز آپکی آدھی جان وہاں ہی نکال دیتے ہیں۔
مریض چاہے ان کی بے حسی اور عدم دلچسپی سے اللہ کو پیار ا ہو جائے۔ انسانیت کی بدترین تذلیل،عجب بے رحمی، بے فکری،ضمیر مردہ ہو چکے ہیں تڑپتی مظلوم انسانیت پر رحم ہی ختم ہو چکا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور نرسوں کا بات کرنے کے انداز سے مریض اور لواحقین اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ان کے لیے ہم کتنی حیثیت رکھتے ہیں یہ وہ تمام لوازمات ہیں جو کسٹمر سروس میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں یہ وہ ابتدائی علاج کے زمرے میں آتے ہیں جس سے مریض کی تکلیف آدھی رہ جاتی ہے۔
مریض حاکم وقت کو دعائیں دے رہے ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انکا علاج ایسا ہورہا ہے۔ آئی۔سی۔ یو میں انسانیت کا جنازہ نکل رہا ہوتا ہے انتہائی نگہداشت میں جتنی مریضوں کوعلاج کی اشد ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی ڈاکٹرز کی لاپروائی سے مریض کے لواحقین ICUکے باہر بیٹھے تسبیح کرتے، جائے نماز پربیٹھے نظر آتے ہیں جو اللہ پاک سے دعائیں کر رہے ہوتے ہیں کہ ڈاکٹرز حضرات ہمارے اور مریض کے حال پر رحم کریں، دوسری طرف اگر کسی VIPشخصیت کا کوئی مریض براجمان ہو تو ڈاکٹر ز اور عملہ کی دوڑیں لگ رہی ہوتی ہیں جیسے انہیں خدمت مریضاں کا دورہ پڑ گیا ہو۔ افسوس ناک امر ہے کہ ICUمیں رات 8بجے لواحقین کا داخلہ ممنوع قرار دیا جاتا ہے اور اگلے دن صبح8 بجے اس کا تالا کھلتا ہے اور افسوس ناک امر ہے کہ یہ مسیحا مریضوں کو نرسوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے کمروں میں جا کر سو جاتے ہیں اور نرسیں یہ سوچ کر سو جاتی ہیں کہ اب کس نے یہاں آنا ہے اور صبح ہوتے ہی پتا چلتا ہے بیشتر مریض دم توڑ گئے ہیں۔وطن عزیز کے تمام سرکاری ہسپتالوں کے حالات یہ ہیں کہ انسانیت ہسپتالوں کی راہ داریوں میں سسکتی نظر آتی ہے۔
سیاسی حکومتوں کو ان مسیحاوں نے ہر دن سٹرکوں پر ہنگامے، ہڑتالیں اور جلسے،جلوسوں سے اتنا ڈرا دھمکا دیا ہے کہ انہیں اب کوئی خوف نہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن ہو سکتا ہے ان کی تنظیمیں اتنی فعال نظر آتی ہے جو ان کی پشت پناہی کرتی ہیں کہ سیاسی حکمتیں ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں یہی وجہ ہے کہ غفلت برتنے پر کبھی کسی ڈاکٹر یا ہسپتال کے سربراہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔ہسپتالوں میں طبی سہولیات کا واضح فقدان ہے ناقص حکمت عملی اور غیر سنجیدہ رویے کے باعث صحت سنگین صورت حال اختیار کر چکی ہے۔وارڈز کے ابتر حالات ہیں وہاں مریض کا علاج نرسیں اپنے تجربات سے کرتی ہیں لواحقین کو ہسپتال کا عملہ پیسے لیے بغیر اندر جانے نہیں دیتا، اگر انہیں پیسے نہ دو تو لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں، مگر ان مریضوں اور انکے لواحقین کے ساتھ یہ انسانیت سوز رویہ قیامت نما شکل پیش کرتا ہے۔جہاں ہسپتال میں ڈاکٹر اورعملہ لوگوں کے ساتھ بہیمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے نظر آتا ہے وہاں پر ہی مریضوں اور ان کے لواحقین سے ادوایات منگوا کر بیک ڈور سے ساز باز عام ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے باہر سٹرک پار کر کے بے شمار میڈیکل سٹور اور لیبارٹریز عام نظر آتی ہے جو انہی مسیحاں کے عزیز رشتے داروں کی ہوتی ہیں یا ان کے ایجنٹ ڈاکٹرز و عملہ سے سا ز باز رکھتے ہیں کہ حالات کے مارے ان لوگوں کو ایسی ادوایات اور ٹیسٹ لکھ کر دے جو مریضوں کے لواحیقن مرتا کیا نہ کرتا، لینے پر مجبور ہوں۔
حالیہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے غریب عوام کو سستے اور معیاری علاج کی سہہولیات فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے تاہم اب صورت حال یہ ہے کہ سابقہ حکومت جو عوام کو مفت ادوایات و ٹیسٹ حتی کہ پارکنگ کی مفت سہولت فراہم کر رہی تھی وہ بھی عوام سے واپس لے کر ٹوکن فیس لگادی گئی ہے۔ وطن عزیز میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ زمین بوس ہوتا جا رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں سرکاری ہسپتال بھینسوں کے باڑے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں علاج کے لیے دیہاتوں میں لوگ دائیوں، نیم حکیموں اور جعلی ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہیں جس کی وجہ سے عام بیماریوں کی وجہ سے اموات کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے دیہاتوں اور شہروں کے پسماندہ علاقوں میں لوگوں کو صحت کی بنیادی اصولوں کی اگاہی نہ ہونا بھی معیار زندگی کو بدتر بنا رہی ہے۔دیہی علاقوں کے غریب لوگ شہروں کا مہنگا سفر نہیں کر سکتے اور عطائی حکمیوں اور چل پھر کر بنے ڈاکٹروں کے ہاتھوں علاج پر مجبور ہے یہاں کہی ریاستی مشنری نظر نہیں آئی۔
حالیہ حکومت کی طرف سے بجائے سرکاری ہسپتالوں میں غیر منصفانہ ماحول کے نظام کو بہتر اور فعل بنایا جائے۔ادوایات کی قیمتیں کم کی جائیں۔ہیلتھ کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے حالانکہ ہسپتالوں میں غریب عوام کے لیے پہلے سے موجود گورنمنٹ کے فنڈز، زکو، بیت المال، مخیر حضرات کے فنڈز کی مد میں موجود فنڈز کو عوام تک پہنچانے کی حکمت علی کی ضرورت ہے کہ وہ کیسے اور کون لوگ ہڑپ کرتے ہیں اس کے سدباب کا تدارک ریاست کی اہم ذمہ داری ہے۔دوسری طرف ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں چند گھنٹے گزارنے آتے ہیں انہیں پرائیویٹ کلینک جانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ہسپتال آنے کا بنیادی مقصد حاضری لگوانا اور یہاں اپنے ایجنٹوں کے زریعے جو مریض ہسپتال سے ڈسچارج ہو تے ہیں انہیں یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ آئندہ آپ نے چیک اپ کیلیے ڈاکٹر صاحب کے کلینک آنا ہے۔ سرکاری ہسپتال کو ڈاکٹرزاپنے پرائیویٹ کلینک کے بکنگ آفس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ایک ڈاکٹر کی کلینک میں فیس ایک ہزار سے 7000تک ہے۔ جو عام انسان کی دسترس سے باہر ہے۔جہاں ایک طرف مسیحاوں کا یہ بیہمانہ رویہ تو دوسری طرف اس پیشہ سے وابستہ فرشتہ سیرت ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جو دن رات انتھک محنت سے سر شار ہو کر عوام کی خدمت کرتے ہیں مگر کرپٹ عناصر انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 38کے مطابق ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپے تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب، جنس، ذات، عقیدہ اور نسل کے زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمو ل صحت اور علاج معالجہ کی سہولتوں کو یقینی بنائے اسکے علاہ حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی صحت سے متعلق ملینیم چارٹر پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت ہر مذہب ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحت عامہ کی بہتر سہولتوں سے مستفید کرے، شہریوں کو صاف ستھرا ماحول، صاف پانی اور ملاوٹ سے پاک خوراک فراہم کرنے کے علاوہ غربت کے خاتمے کا بندوبست کرئے تاکہ شہری کم سے کم بیمار ہوں۔حالیہ حکومت کو شعبہ صحت کے معاملے کو اولین ترجیح پر رکھتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز پر سختی سے پرائیویٹ کلینک پر پابندی عائد کرنی چاہے اور خلاف ورزی پر سخت کاروائی عمل میں لانی چاہیے ہسپتالوں میں خصوصی شعبہ ایمرجنسی، وارڈز، ICUپر خصوصی توجہ مبزول کرنی چاہیے، مریضوں کے لواحقین کی تذلیل،بے جا ادوایات، اپنی من مرضی کی لیب سے ٹیسٹ،سرکاری ہسپتال کے اندر کی تمام کرپشن کے باب بند کرنے ہوں گے ورنہ تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ پاکستان زندہ باد،بشکریہ سی سی پی۔