افریقہ (اصل میڈیا ڈیسک) افریقہ میں کورونا وبا کی انفیکشنز یورپ کے مقابلے میں کم ہے۔ اگر ویکسینیشن کی رفتار مناسب نہیں رکھی گئی تو صورت حال یورپ سے بھی بدتر ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق امیر ملکوں کو ویکسین کا ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
افریقہ میں مقامی سطح پر ویکسین بنانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن پھر بھی زیادہ تر افریقی ملکوں کا ویکسین کے حصول کا انحصار بیرونی ممالک پر ہے۔ جس رفتار سے یورپ میں کووڈ انیس کی نئی انفیکشنز بڑھ رہی ہیں، اسی رفتار سے افریقی ملکوں کو ویکسین کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
جرمن حکومت نے ملک میں وبا کی شدت میں اضافے کے تناظر میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ ویکسین بھی روک لی جائے گی جو غریب ملکوں کو فراہم کرنے کے لیے وقف کی گئی ہے۔ جرمنی کے انٹرنیشنل دوا ساز ادارے بائیو این ٹیک کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین کی غریب ملکوں کو فراہمی کے بین الاقوامی پروگرام کو ویکسین کے لیے ویکسین کی سپلائی روک دی گئی ہے۔ جرمن وزیر صحت ژینس اشپاہن کے مطابق یہ سپلائی دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں میں فراہم کی جانا تھی۔
ایک غیر منافع بخش مہم وَن نے برلن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے کو تبدیل کرے اور کوویکس پروگرام میں اپنے حصے کی کورونا ویکسین فراہم کرنے کا سلسلہ بحال رکھے۔
اس ادارے کا مزید کہنا ہے کہ اگر ویکسین کی فراہمی معطل کی جاتی ہے اور مناسب سپلائی دنیا کو نہیں دی جاتی تو یہ عمل وبا کو مزید طویل دے گا۔
وَن مہم کے جرمن دفتر کے سربراہ اشٹیفان ایکسو کرائشر کا کہنا ہے کہ ویکسین کی فراہمی کو معطل کرنے کا وزیر صحت اشپاہن کا فیصلہ ایک بہت بڑی غلطی ہے اور یہ تباہ کن پیغام ہے ان ممالک کے لیے جو ویکسین کے لیے جرمنی پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ کرائشر کا مزید کہنا ہے کہ جرمنی کے پاس ضرورت سے زیادہ ویکسین کی خوراکیں پہلے سے موجود ہیں۔
مہم وَن کے اہلکار نے کہا ہے کہ امیر ملکوں میں کئی افراد کو بوسٹر فراہم کیا جا چکا ہے جب کہ غریب ملکوں میں بیشتر افراد کو محض ایک خوراک ہی دی گئی ہے۔ انہوں نے اس ساری صورت حال کو خراب سیاست کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس اڈہنوم گھبرائسس پہلے ہی بعض ممالک پر ویکسین کا ذخیرہ کرنے کے تناظر میں تنقید کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر روز کئی ممالک میں ویکسین کی بنیادی خوراک کی فراہمی کے مقابلے میں پہلے سے ویکسین شدہ افراد کو چھ گنا زیادہ بوسٹر فراہم کیے جا رہے ہیں۔ گھبرائسس نے اس عمل کو ایک اسکینڈل قرار دیا اور اس کو روکنا ازحد ضروری خیال کیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ براعظم افریقہ کی ایک بلین سے زائد آبادی میں سے صرف سات فیصد کو ویکسین لگائی گئی ہے اور وبا پھیلتی ہے تو پھر صورت حال شدید خراب ہونے کا امکان ہے۔
ڈی ڈبلیو کے ایک انکوائری سوال کے جواب میں جرمن وزارتِ صحت نے واضح کیا کہ برلن اب تک کوویکس پروگرام میں مفت ایک سو خوراکیں فراہم کر چکا ہے اور ان کی تقسیم بھی کوویکس کے ذریعے کی جائے گی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس مَد میں جرمن حکومت نے 2.2 بلین یورو کی سرمایہ کاری کی ہے تا کہ کورونا ویکسین کی مزید پروڈکشن اور کورونا ٹیسٹ کے سامان کی تقسیم کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ کوویکس میں بھی 1.6 بلین یورو دیے گئے ہیں۔
دوسری جانب براعظم افریقہ میں جہاں کورونا ویکسین لگانے کا عمل بہت ہی کم ہے وہاں اب اس وبا کی افزائش بھی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس براعظم میں متعدی امراض کے نگران ادارے کے مطابق اب تک پچاسی ملین افراد میں اس مرض کی نشاندہی ہوئی ہے اور ان میں سوا دو لاکھ کے قریب مریض شدید بیمار ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت افریقی براعظم میں پندرہ فیصد بیمار افراد میں کووڈ انیس کی تشخیص کی گئی ہے اور اگر وہاں اس وبا کے پھیلاؤ کی شرح کم ہے تو مطلوبہ مریضوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے پھر بھی سات گنا زیادہ ہے۔
غیر منافع بخش مہم وَن کے سینیئر اہلکار اشٹیفان ایکسو گرائشر کا کہنا ہے کہ اس براعظم میں تفصیلی ڈیٹا کی دستیابی کا مسئلہ بھی موجود ہے، اس کی ایک مثال تنزانیہ ہے جہاں کورونا وبا کے مریضوں کا ریکارڈ جمع ہی نہیں کیا جاتا۔ ادھر جنوبی افریقہ میں کووڈ انیس کی وجہ سے ہلاکتیں اندازوں سے بھی تین گنا زیادہ ہوئی ہے۔
جنوبی افریقہ کی سٹیلابوش یونیورسٹی کے ریسرچر وولفگانگ پرائزر کا کہنا ہے کہ بیماری کا ریکارڈ تبھی جمع کرنا ممکن ہے اگر اس کے ٹیسٹ کرنے کا سلسلہ بھی موجود ہو اور اس بیماری کا مجموعی ڈیٹا اموات سے ہی اس براعظم میں لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق فی الحال تو دوسری بیماریاں وبا کی وجہ سے نظرانداز ہو چکی ہیں، کورونا اموات کی اصل تعداد کا حتمی تعین بھی وبا کے خاتمے کے بعد ہی ہو سکے گا۔