روس (اصل میڈیا ڈیسک) روسی خفیہ ادارے کے سابق ایجنٹ الیگزانڈر لِٹوینینکو کو کس نے زہر دیا؟ لندن میں ان کی پُراسرار موت کے پندرہ برس بعد بھی اس سوال کا جواب نہ مل سکا لیکن شبہ روسی حکام پر ہی ہے۔
23 نومبر 2021 ء کو الیگزانڈر لِٹوینینکو کی موت کے 15 سال مکمل ہو گئے۔ وہ ماضی میں روسی خفیہ ادارے کے جی بی اور بعد از سویت دور میں روس کی داخلی خفیہ سروس ایف ایس بی کے کارکن تھے۔ سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد کریملن کے کسی ناقد کی غیر ملک میں زہر کے نتیجے میں ہونے والی یہ پہلی موت ہے جس کی خبر منظرِعام پر بھی آئی۔
الیگزانڈر لِٹوینینکو سابق سویت یونین اور بعد میں روس کے سکیورٹی ادارے کے لیے گیارہ برس تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے یعنی 1988 ء تا 1999ء۔ سن 2000 میں وہ منحرف ہو کر برطانیہ چلے گئے، وہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دی۔ تاہم ان کے بارے میں خفیہ معلومات ان کے ملک سے فرار کے چند سالوں پہلے سے ہی فاش ہونا شروع ہو گئی تھیں۔جرمنی میں روس کے لیے جاسوسی کرنے والا برطانوی شہری گرفتار
1998ء میں لِٹوینینکو اور ان کے کئی ساتھیوں نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ انہیں با اثر اشرفیہ اور سیاستدانوں کی طرف سے بورس بیرسسوسکی کو قتل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ بورس بیرسسوسکی کا تعلق بھی روسی اشرفیہ سے تھا اور وہ ایک حکومتی اہلکار، بزنس مین اور انجینیئر بھی تھے۔
بعد ازاں لِٹوینینکو کو ایف ایس بی سے فارغ کر دیا گیا اور کئی بار انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال سے لے کر ہتھیاروں کے غیر قانونی حصول تک کے الزامات عائد کیے گئے۔ ابتدائی طور پر یا ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے یا تو انہیں بری کر دیا جاتا یا روسی عدلیہ میں استغاثہ ایک مقدمہ ختم ہونے کے فیصلے کے ساتھ ہی اُسی دن ایک نیا مقدمہ شروع کر دیتی۔
ولادیمیر پوٹن کے روسی فیڈریشن کے صدر بننے کے بعد صرف آخری مجرمانہ کارروائی میں لِٹوینینکو کو ساڑھے تین سال کے پروبیشن کی سزا سنائی گئی تھی – تاہم یہ سزا انہیں ان کی غیر حاضری میں سنائی گئی تھی کیونکہ وہ اُس سے قبل ہی روس سے نکلنے میں کامیاب ہو چُکے تھے۔
ایف ایس بی کے سابق ایجنٹ الیگزانڈر لِٹوینینکو 2004ء میں برطانوی خفیہ سروس MI6 کے ایجنٹ بن چُکے تھے اور انہوں نے ہسپانوی خفیہ سروس کے ساتھ بھی کام کیا تھا اور یورپ میں روسی مافیا اور اُس کے روسی حکام کے ساتھ روابط کے بارے میں خفیہ معلومات آگے پہنچائیں۔ لِٹوینینکو بارہا روسی خفیہ اداروں اور ذاتی طور پر ولادیمیر پوٹن کے خلاف الزامات لگاتے رہے۔ غیر معمولی بین الاقوامی توجہ کا باعث ان کی کتاب بلوئنگ اَپ رشیہ (Blowing up Russia) بنی۔ اس کتاب کو انہوں نے روسی مؤرخ یوری فلشٹنسکی کے تعاون سے شائع کیا تھا۔ یہ کتاب میں 1999ء میں روس میں رہائشی مکانوں میں ہونے والے دھماکوں اور کئی دیگر دہشت گردانہ حملوں کے لیے چیچنیا کی جنگ کا جواز پیش کرنے اور ولادیمیر پوٹن کے اقتدار میں آنے کی منظم کوششوں جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ نیز ایف ایس بی اور مجرمانہ گروہوں کے درمیان روابط پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
برطانوی عدلیہ کی تحقیقات کے مطابق یکم نومبر 2006ء کو الیگزانڈر لِٹوینینکو کو زہر دیا گیا تھا اس کے تین ہفتے بعد ان کی موت ہسپتال میں ہوئی۔ طبی تحقیقات سے پتا چلا کہ ان کے جسم میں کم دستیاب تابکار Isotops Polonium-210 کے اثرات پائے گئے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیش کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لِٹوینینکو کے ایک طویل عرصے سے جاننے والے نے زہر دیا۔ ہوا یہ تھا کہ روسی فیڈریشن کے سینٹرل گارڈ آفس کے سابق افسر آندرے لوگووئی نے روسی تاجر دیمتری کوٹون کی ملی بھگت سے الیگزانڈر لِٹوینینکو کو زہر دینے کی منصوبہ بندی کی ۔ تفتیش کے مطابق یہ کارروائی لندن کے ہوٹل کے بار میں ملاقات کے دوران عمل میں آئی۔ لِٹوینینکو کی چائے میں Isotops Polonium-210 ملایا گیا۔ برطانوی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تفتیشی کارروائی سے تمام ایسے نشانات ملیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قتل روسی ریاست کے ایما پر کیا گیا۔
جرمنی میں بھی الیگزانڈر لِٹوینینکو کو زہر دے کر قتل کرنے کی کارروائی کی تفتیش کی گئی جس سے پتا چلا کہ دیمتری کوٹون جو لِٹوینینکو کی موت سے کچھ پہلے ہی اُن سے لندن میں ملا تھا، نے ماسکو سے لندن سفر کے درمیان Isotops Polonium-210 کے نشانات چھوڑے تھے۔ اس کے علاوہ جرمن شہر ہیمبرگ میں کوٹون کی سابقہ بیوی کے اپارٹمنٹ میں جہاں وہ ٹھہرا تھا اور اُس گاڑی میں جس سے وہ ایئرپورٹ سے خاتون کے گھر میں پہنچا تھا کے اندر مہلک مادے Isotops Polonium-210 کی معمولی مقدار ملی تھی۔