ایران (اصل میڈیا ڈیسک) بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے تہران میں ملکی رہنماؤں سے اپنی ملاقاتوں میں مطالبہ کیا کہ ایران اقوام متحدہ کے اس ادارے کے ماہرین کو اپنی جوہری تنصیبات تک زیادہ اور بہتر رسائی دے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی، دائیں، تہران میں ایٹمی توانائی کے ایرانی ادارے کے سربراہ محمد اسلامی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافائل گروسی اپنے تازہ ترین دورے پر کل پیر کی شام تہران پہنچے تھے۔ انہوں نے آج منگل تیئیس نومبر کے روز ایرانی ایٹمی پروگرام کے سربراہ محمد اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں گروسی نے اسلامی سے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015ء میں طے پانے والے اور گزشتہ چند برسوں سے تعطل کے شکار جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے عنقریب شروع ہونے والے مذاکرات کے پیش نظر تہران کو بین الاقوامی ماہرین کو اپنی ایٹمی تنصیبات تک زیادہ رسائی دینا چاہیے۔
ماضی میں اس دور کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکا کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یک طرفہ اخراج کے اعلان کے بعد سے تہران نے اپنی ایٹمی تنصیبات میں یورینیم کی طے شدہ حد سے کہیں زیادہ افزودگی کا عمل شروع کر رکھا ہے۔
اس تناظر میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کا مطالبہ ہے کہ ایرانی حکومت اس ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ملکی ایٹمی تنصیبات کی سکیورٹی فوٹیج تک رسائی دے۔ اس کے علاوہ اس بین الاقوامی ادارے کو یہ موقع بھی ملنا چاہیے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ ایران اب تک کتنا یورینیم کس حد تک افزودہ کر چکا ہے۔
ایرانی حکومت اب تک ان دونوں کاموں کی اجازت دینے سے انکاری ہے اور یہی بات اس معاملے میں تہران اور آئی اے ای اے کے مابین اختلاف رائے کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔
گروسی کا ایران کا تیسرا دورہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی اس وقت ایران کے جس دورے پر ہیں، وہ ان کا اس سال فروری سے لے کر اب تک اس ملک کا تیسرا دورہ ہے۔ آج منگل کے روز گروسی ایٹمی توانائی کی ایرانی تنظیم کے صدر دفتر بھی گئے، جہاں انہوں نے اس ادارے کے سربراہ محمد اسلامی سے ملاقات کی۔
اس ملاقات سے قبل گروسی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ایرانی حکام کے ساتھ مل کر اب تک حل طلب امور کے حل تلاش کر لیے جائیں گے۔
ویانا میں قائم آئی اے ای اے اور ایران کے مابین ماضی میں ایک ایسا خفیہ معاہدہ بھی ہوا تھا، جسے ‘اضافی پروٹوکول‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت اس عالمی ادارے کو یہ اجازت ہے کہ وہ ایرانی جوہری تنصیبات میں نصب سکیورٹی کیمروں کی تصاویر اور فوٹیج تک رسائی حاصل کر سکے اور پھر تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتائج اخذ کر سکے کہ آیا ایران جوہری معاہدے کے تحت خود پر عائد ہونے والی ذمے داریاں پوری کر رہا ہے۔
ایران: جوہری مذاکرات 29 نومبر سے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان
اس معاہدے کے برعکس ایرانی پارلیمان نے دسمبر 2020ء میں ایک ایسا قانون منظور کر لیا تھا، جس کے تحت اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی طرف سے ایرانی جوہری تنصیبات کے معائنے کے عمل کو معطل کر دیا گیا تھا۔ تب اس معائنے کی بحالی کے لیے شرط یہ رکھی گئی تھی کہ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے یورپی ممالک کو اس سال فروری تک ایران کے خلاف تیل اور بینکنگ کے شعبوں میں عائد پابندیوں میں نرمی کو یقینی بنانا تھا۔
یورپی ممالک نے چونکہ ایسا نہیں کیا تھا، اس لیے عالمی معائنہ کاروں کو اس سال فروری سے ایران نے اپنی تنصیبات کی نگرانی کی اجازت بھی نہیں دی۔ گروسی اپنے دورے کے دوران اسی حوالے سے پائے جانے والے جمود کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی کو تہران میں محمد اسلامی سے ملاقات کے بعد آج ہی ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے بھی ملاقات کرنا تھی۔ محمد اسلامی کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد گروسی نے ان سے ہونے والی گفتگو کو ‘بھرپور‘ قرار دیا۔
ایران کے متعلق جوہری توانائی ایجنسی کی رپورٹ پر یورپی ملکوں کو’سخت تشویش‘
ساتھ ہی رافائل گروسی نے ایرانی ٹی وی سے نشر کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں کہا، ”فی الحال ہم اپنی مکالمت جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ کسی کامن گراؤنڈ تک پہنچ سکیں۔‘‘ گروسی نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ ایرانی حکومت کے ساتھ بات چیت میں مزید تعاون کا خواہش مند ہے۔