ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی پارلیمنٹ کے رکن فریدون عباسی دوانی نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر دفاع کے سابق معاون اور ایرانی جوہری پروگرام میں پس پردہ کام کرنے والے محسن فخری زادہ نے رہبر اعلی علی خامنہ ای کے فتوے کے باوجود جوہری ہتھیار تیار کرنے کے واسطے ایک “نظام قائم کیا”۔ دوانی ایٹمی توانائی کی ایرانی ایجنسی کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں۔ خامنہ ای کے فتوے میں جوہری ہتھیار کے تیار کیے جانے ، اسے ذخیرہ کرنے اور اسے استعمال کرنے کو حرام قرار دیا گیا تھا۔
دوانی کے مطابق فخری زادہ نے ایرانی جوہری صنعت کی پیش رفت کے لیے ابتدائی نقشہ راہ تیار کرنے اور 20 فی صد تناسب سے جوہری ایندھن تیار کرنے میں کردار ادا کیا۔
حکام کے زیر انتظام مقامی اخبار “ایران” کے ساتھ خصوصی گفتگو میں دوانی کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے فخری زادہ کا معاملہ “محض ہمارے اپنے وطن کے دفاع” تک محدود نہیں تھا اس لیے کہ ہمارا ملک “مزاحمتی محاذ” کو سہارا دیتا ہے۔
واضح رہے کہ ایرانی حکومتی ذمے داران “مزاحمتی محاذ” کی اصطلاح شام اور وینزویلا کے علاوہ یمن، لبنان، عراق اور فلسطین میں تہران کی ہمنوا ملیشیاؤں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
محسن فخری زادہ کو “ایرانی جوہری پروگرام کا باپ” قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں 27 نومبر 2020ء کو اُس وقت نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا جب کہ دارالحکومت تہران کے نزدیک سڑک پر گاڑی چلا رہے تھے۔ ایران نے فخری زادہ کے قتل کی ذمے داری اسرائیل پر عائد کی تھی۔
فریدون نے اخباری انٹرویو میں باور کرایا کہ سابق صدر حسن روحانی کی حکومت کے آخری برسوں میں محسن فخری زادہ کی سرگرمیاں محدود ہو گئی تھیں۔ وہ حیاتیاتی تحقیقوں پر کام کر رہے تھے۔ غیر ملکی سیکورٹی ادارے 2008ء سے فخری زادہ کو ختم کرنے کے درپے تھے۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہین گذشتہ موسم بہار کے اواخر میں اسرائیلی چینل 12 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تصدیق کر چکے ہیں کہ فخری زادہ کی ہلاکت میں موساد ملوث ہے۔
رواں ستمبر میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فخری زادہ کے قتل میں اسمارٹ آتشی ہتھیار کا استعمال کیا گیا۔ یہ کارروائی کی جگہ سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی کنٹرول کی جا سکتی ہے۔