لاہور کے حلقہ این اے 133 میں ووٹوں کے بدلے بخشش کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے ویڈیو میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے دو،دو ہزار میں قران مجید پر حلف لیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ایک زمانہ تھا کہ بخشش ہوٹل کے بیروں اور چپڑاسیوں کے لئے مخصوص تھی مگر جب نواز شریف سیاست میں آیا تو بخشش کا معیار بہت بلند ہو گیا سب سے پہلے تو میاں شریف نے اپنے بیٹے کو 1981 میں وزیر خزانہ بنوانے کے لیے بخشش دی جس کے بعد میاں نواز شریف نے یہ سلسلہ رکنے نہ دیا جسکی بدولت وہ جنرل ضیاء کے دور میں ہی پنجاب کے وزیراعلی بن گئے 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کے دوران بخشش کی انتہا کرنے پر وزیر اعظم بنے اور الزام لگاکہ ایک انٹیلی جنس ایجنسی نے نواز شریف کے حق میں انتخابی عمل میں لاکھوں روپے کی رشوت سیاست دانوں میں تقسیم کی گئی جسکے نتیجہ میں بننے والی پہلی شریف حکومت کو غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے میں برطرف کر دیا جس پر نواز شریف نے عدالت عظمیٰ پاکستان سے رجوع کیا۔
15 جون 1993ء کو منصف اعلیٰ نسیم حسن شاہ نے نواز شریف کو بحال کر دیا فیصلے سے چند روز پہلے یونان کے بینک میں بیس کروڑ روپے کی بخشش منتقل ہوئی جسے بے نظیر نے اس بخشش کو چمک کا عنوان دیاتھا پھر بعد میں بخشش میں کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی ملی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ر رفیق تارڑ جو جسٹس سجاد علی شاہ کو نکلوانے کے ماسٹر مائنڈ تھے انہیں اس خدمت کے عوض صدارت بخشش میں ملی۔جسٹس سعید الزماں صدیقی کی بخشش تو اس قدر بھاری تھی کہ بخشش میں ملی سندھ کی گورنری کا حلف اٹھاتے اٹھاتے گرے اور اللہ کو پیارے ہو گئے چیف جسٹس افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان کو ریکوڈک کی چیئرمینی بخشش میں دی گئی, جسٹس خلیل الرحمن خان رمدے کے بیٹے کو بخشش میں ایڈوکیٹ جرنل کم عمری میں بنایا گیا اسی طرح صحافیوں کی فہرست بھی بہت لمبی ہے کسی کو مشیر،کسی کو وزیر،کسی کو چیئرمین،کسی کو سفیر،کسی کو پیٹرول پمپ،کسی کو پلاٹ اور کسی کوحج عمرہ کے ساتھ ساتھ نقد مال پانی بخشش میں دیا گیا مولانا فضل الرحمن کو بخشش میں کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی اور ڈیزل کے پرمٹ ملے باقی مولویوں کی فہرست بھی بڑی طویل ہے۔
نواز شریف نے یہ ساری بخشش اپنی جیب سے نہیں بلکہ سرکاری خزانے سے دی بیت المال سے ہر سال کروڑوں روپے نکلوا کر عید بقرعید پر غریب صحافیوں اور گریڈ سترہ سے اوپر مستحق سرکاری افسران کو عیدی کی شکل میں دی جاتی تھی بیت المال میں یہ رقم زکواۃ کٹوتی سے حاصل ہوتی تھی انہی پیسوں سے پھر بعد میں اراکین کو بھی خریدا جانے لگا کبھی چھانگا مانگا کی سیاست کھیلی گئی تو کبھی مری میں بولیاں لگتی رہی انسانوں کی منڈی میں خریدو فروخت کا یہ کاروبار اتنا چلا کہ جسے دیکھوں کسی نہ کسی بھاؤ تاؤ کے چکر میں ہی نظر آیااور اب تو یہ کام اتنا عام ہوگیا کہ سرے عام گلی محلوں میں شروع ہوگیا کون کہتا میرے دیس میں کاروبار مندے پڑ گئے ہیں؟ یہاں ووٹ بکتے ہیں، یہاں گر دے بکتے ہیں۔
عورت کی عزت کیا چیزہے پوری عورت بکتی ہے، یہاں بچے بکتے ہیں،یہاں فتوے بکتے ہیں،یہاں انصاف بکتا ہے، یہاں علم بکتا ہے یہاں دین بکتا ہے، یہاں شاعر کے ایک ایک لفظ کا بھاؤ لگتا ہے،یہاں ادیب کے ہر پیرے فقرے کی الگ الگ قیمت لگتی ہے،یہاں خون بکتا ہے یہاں سکون بکتا ہے،یہاں جھوٹ بولنے کی قیمت وصول کی جاتی ہے،یہاں سچ بھی اچھی قیمت پر نیلام ہوجاتا ہے، یہاں شرافت بھی آپ خرید سکتے ہیں،یہاں رسوائی بدنامی کی بھی منہ مانگی رقم مانگی جاتی ہے،یہاں ہر کاروباری جلدی میں ہے کہ اسے خریدنے کے فورا بعد کچھ بیچنا ہوتا ہے،میں بھی خریدار تو بھی خریدار، میں بھی دکاندار تو بھی دکاندار،انسانیت کے کاروبار کا ایسا جمعہ بازار جس کا ہفتہ اتوار کبھی نہیں آتا،یہاں عبادتوں کا بھی پروردگار سے سودا طے کر لیا جاتا ہے،اتنا دے گا تو اتنے نفل پڑھوں گا۔
اتنا منافع ہوا تو اتنے روزے رکھوں گا، مسجد میں سودے، مندر میں سودے،چرچ میں سودے درباروں پر سودے ہر طرف سودے ہی سودے تو چلو آج ایک نیا سودا کرکے دیکھیں کسی کے آنسو خرید کر خوشیاں دیدیں، پھول سے خوشبو خرید کر بلبل کو نغمے دیدیں،بے وفائی خرید کر وفا دے دیں، ظالم سے ظلم خرید کر اسے انسانیت دے دیں،کسی سے درد لے کر راحت دے دیں،آؤ ایک طوائف سے اس کی مجبوری خرید کر اسے عزت دے دیں آؤ آؤ میرے ساتھ آؤ وقت کم ہے یہ نہ ہوکہ انسان سبھی نیلام ہوجائیں دکانیں جل کر خاکستر ہو جائیں اور زمین قدموں کے نیچے سے اپنا دامن سمیٹ لے اب بھی وقت ہے کہ ہم سب مل کر بخشش کی لعنت سے جان چھڑوالیں اور اپنے ملک کو انسانوں کے بیوپاریوں سے بچالیں یاد رکھیں فرد واحد کبھی بھی ملک کے حالات بہتر نہیں کر سکتا۔
ملک کے حالات تو ایک طرف اکیلا فرد اپنے شہر کے حالات ٹھیک نہیں کر سکتا شہر کو بھی ایک طرف چھوڑیں وہ اپنے گھر کے حالات درست نہیں کرسکتا بکھرے سامان کے ساتھ گھر بھی کباڑیے کی دوکان کا نقشہ پیش کررہا ہوتا سب گھر والے ملکر اپنے گھر کو خوبصورت بناتے ہیں اسی طرح پاکستان بھی ہمارا گھر ہے اور اگر ہم یہ سمجھنا شروع کردیں کہ اس گھر کو وزیر اعظم عمران خان اور پنجاب کو وزیراعلی عثمان بزدار اکیلے ہی درست کرلیں گے تو یہ ہماری خام خیالی ہے یہاں پر مافیا نے جگہ جگہ اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں آج سے نہیں بلکہ کئی دھائیوں سے یہ نظام خراب ہہوتا ہوتا اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اسے درست کرنے کے لیے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گاایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر خود بلی کی طرح آنکھیں بند کرنے سے مصیت اور بلا ٹلتی نہیں بلکہ شکاری کو آسان شکار مل جاتا ہے اور انہی شکاریوں نے ہمیں تباہ و برباد کر دیا نہ ہمارے ادارے بچے اور نہ ہی ہمارا اخلاق۔