وطن عزیز پاکستان میں آج کل زرد سیاست عروج پر ہے۔اس زرد سیاست میں صرف اور صرف اشرافیہ کی جنگ اقتدار کے حصول تک محدود ہے۔دنیا بھر کے ممالک جدید چیلنجز اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔بتایا جاتاہے کہ اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) نے 2 دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے ساتھ مل کر مستقبل کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق ورلڈ فیوچر ڈے ہر سال 2 دسمبر کو منایا جائے گا۔ یونیسکو کی جنرل کانفرنس کے 41 ویں اجلاس میں مستقبل کے عالمی دن کو منانے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا جو 24 نومبر 2021 کو پیرس میں اختتام پذیر ہوا۔
ورلڈ فیوچر ڈے کا مقصد (future mindset) کو تیار کرنے کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے جو مختلف چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتوں کی تیاری کو بڑھانے، جامع ترقی، نئے حل اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی مکالمے، جدت اور تعاون میں معاون ثابت ہوگا۔ متحدہ عرب امارات کے نائب صدر،وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران عزت مآب شیخ محمد بن راشد آل مکتوم نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو نے متفقہ طور پر متحدہ عرب امارات کے قومی دن 2 دسمبر کو مستقبل کے عالمی دن کے طور پر اپنایا ہے جس میں دنیا کے تمام ممالک اپنے مستقبل کی ترقی اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے مواقع اور منصوبہ بندی کی تیاری کے لیے اپنے وژن کا جشن منائیں گے۔
مستقبل کے لیے ایک ملک کی حیثیت سے متحدہ عرب امارات کی بین الاقوامی شناخت اس کے وژن کے ماڈل کے طور پراور اس کی صنعت کے لیے ایک بڑے مرکز کی وجہ سے ہم پر اس سے بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی رفتار تبدیلیوں کے ساتھ رکھتے ہوئے مستقبل کا تصور کرنے میں صلاحیتوں کو فروغ دیں اورمواقع سے فائدہ اٹھائیں۔میں اپنے ملک کی اچھی صحت، خوشحالی، ایک بہتراور عظیم مستقبل کا خواہاں ہوں۔ یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے کہاکہ کرونا نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ ہم اپنا راستہ بدل سکتے ہیں اور اسے ضرور بدلنا چاہیے چونکہ نئے خطرات ہمارے حال پر گہرے سائے ڈال رہے ہیں۔ہمیں اپنے مستقبل کا تصور کرنے اوراسے اجتماعی طور پر تعمیر کرنے کے لیے دنیا کے ناقابل یقین تنوع کو بروئے کار لانا چاہیے۔
دوسری جانب یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ نے ثقافتی اور تخلیقی ایکو سسٹم کے تحفظ کے لیے اقدامات کو مستحکم بنانے کی غرض سے متحدہ عرب امارات کی قیادت میں (بین الاقوامی سال 2021کی تخلیقی معیشت برائے پائیدار ترقی) کے عنوان سے فیصلے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ قرارداد تخلیقی معیشت کے علمبردار ممالک انڈونیشیا، کولمبیا اور بنگلہ دیش کے ساتھ شراکت میں دستاویز کے شریک مصنفین کے طرف سے پیش کی گئی جسے یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے 212ویں اجلاس کے دوران 36 سے زائد رکن ممالک نے منظور کرلیا۔ ثقافت اور نوجوانوں کی وزیر نورہ بنت محمد الکعبی نے کہاکہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے پیش کیے گئے فیصلے کا مقصد ثقافتی اور تخلیقی ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے اقدامات کو مستحکم کرنا ہے۔آج تخلیقی معیشت معاشروں کی جامع اقتصادی ترقی کے حصول میں ایک اہم اور قابل ذکر کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں کے تحفظ اور پرورش کے لیے عالمی کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ متحدہ عرب امارات کی وزارت ثقافت اور نوجوانوں کے زیر اہتمام ایکسپو 2020 دبئی کے دوران 7 دسمبر سے 9 دسمبر 2021 تک منعقد ہونے والی تخلیقی معیشت پر عالمی کانفرنس (WCCE) کے نتائج پر استوار ہوگا۔ یہ مینڈیٹ کے تحت رکن ممالک کو اس اہم شعبے کے لیے فیصلہ سازی میں مدد فراہم کرے گا۔ ابوظبی کے محکمہ ثقافت اور سیاحت کے چیئرمین محمد خلیفہ المبارک نے کہا کہ ہم یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے اس قرارداد کو منظور کرنے کے فیصلے پر خوش ہیں جس کا مقصد دنیا بھر میں ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں کو ایک ذریعہ کے طور پر فروغ دینا ہے۔
یہ یونیسکو اور اس کے رکن ممالک کے مقاصد کی حمایت کرتی ہے اور ان میں ثقافتی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کو آگے بڑھانے میں تعاون فراہم کرتی ہے۔ دستاویز یونیسکوسے موجودہ اور ابھرتے ہوئے بین الاقوامی پلیٹ فارمز اور کانفرنسز میں کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لینے کی درخواست کرتے ہوئے ثقافتی اور تخلیقی ماحولیاتی نظام کی پرورش اور تحفظ کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے جس کا مقصد پالیسی ہدایات کو یقینی بنانا ہے۔دستاویز یونیسکوسے ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں پر بین الاقوامی اشاریوں کی ترقی کا آغاز کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ 2022 تک اس شعبے کی ترقی کی مقدار طے کرنے اور اس کی نگرانی میں تمام رکن ممالک کی مدد کی جا سکے۔
اس فیصلے میں یونیسکو، حقوق دانش کے تحفظ کی عالمی تنظیم(WIPO) اور دیگر متعلقہ اداروں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے کی بھی سفارش کی گئی ہے تاکہ ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں کے لیے درکار دانشورانہ املاک کے تحفظات پر اجتماعی طور پر سفارشات پیش کی جائیں اور ڈیجیٹل تبدیلی اور مصنوعی ذہانت کے نتیجے ثقافتی میں شعبے کو در پیش چیلنجز سے نمٹنے نئی پیش رفت کو تلاش کیا جا سکے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے قومی تعلیمی اداروں ”قائداعظم یونیورسٹی سمیت متعدد جامعہ“ بارے میں منظر عام پر آنے والی خبروں سے پتہ چلتاہے کہ ہماری نسل نو کا مستقبل کیا ہے۔