یو اے ای کے 50ویں قومی دن کی تقریبات منائی جارہی ہیں متحدہ عرب امارات (United Arab Emirates) جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مشرقی ساحلوں پر واقع ایک خوبصورت ملک ہے جو 7 امارات ابوظہبی، عجمان، دبئی، فجیرہ، راس الخیمہ، شارجہ اور ام القوین پر مشتمل ہے۔
1971ء سے پہلے یہ ریاستیں ریاستہائے ساحل متصالح (Trucial States) کہلاتی تھیں۔ متحدہ عرب امارات کی سرحدیں سلطنت عْمان اور سعودی عرب سے ملتی ہیں یہ ملک تیل اور قدرتی گیس کی دولت سے مالامال ہے اور اس کا انکشاف 1970ء میں ہونے والی براہ ِ راست بیرونی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں ہونے والی دریافتوں میں ہوا جس کی بدولت متحدہ عرب امارات کا شمارجلد ہی نہایت امیر ریاستوں میں ہونے لگا متحدہ عرب امارات ایشیا میں انسانی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں پیسہ خرچ کرنے والا پہلے نمبروں میں اور دنیا کا 39 واں ملک ہے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے عوام محبت، بھائی چارے اور اخوت کے تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں دونوں ملکوں کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں متحدہ عرب امارات نے مشکل کی گھڑی میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے پاکستان اور عرب امارات کے درمیان دوستی اورمحبت کے رشتے ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے جو مشترکہ ورثے اور کثیر جہتی تعاون پر مبنی ہیں۔
پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات ہمارے دوطرفہ تعلقات کا ایک اہم حصہ ہیں اور مسلسل نمو پا رہے ہیں، 8 بلین ڈالر سے زیادہ کی باہمی تجارت کے ساتھ، متحدہ عرب امارات مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے خطے میں پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے ہم سب پاکستانی نہ صرف متحدہ عرب امارات کے اتحاد کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں بلکہ اس وقت پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کو بھی 50سال مکمل ہو گئے ہیں اس عرصہ میں متحدہ عرب امارات نے جو فقیدالمثال ترقی کے مدارج طے کیے ہیں وہ متحدہ عرب امارات کے بانی محترم شیخ زاید بن سلطان النہیان کی دور اندیش قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھے،اس عظیم رہنما کو پاکستان سے بہت لگاؤ تھا۔
انہوں نے پاکستان میں بہت سے سماجی و اقتصادی منصوبوں میں ذاتی دلچسپی لی اور پاکستانی ورکرز کو متحدہ عرب امارات میں کام کرنے کا موقع دیا اوریہ پاکستانی پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک مضبوط پل کا کردار بھی ادا کررہے ہیں اورمتحدہ عرب امارات میں ان کے جانشین رہنما شیخ زاید کے طے کردہ اعلی معیارات کی پیروی کر رہے ہیں جوپاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے کوشاں ہیں اور انہی پاکستانی سفیروں کی بدولت دونوں ممالک کے درمیان علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر بہتر تفہیم پیدا ہوئی اور اب ہمارے تجارتی اور اقتصادی تعلقات بھی مضبوط ہو چکے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی فاؤنڈیشن کی گولڈن جوبلی کے موقع پر ایکسپو 2020 بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے جہاں پر دنیا بھر سے آئے ہوئے افراد کا ایک سمندر ہے یہ مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا خطے میں پہلی عالمی نمائش ہے پاکستان نے بھی متحدہ عرب امارات سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ایکسپو میں پرجوش انداز میں نہ صرف شرکت کی بلکہ پاکستان پویلین سب سے زیادہ متحرک اور فعال پویلین ہونے کی وجہ سے بھرپور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات ہمارے دوطرفہ تعلقات کا ایک اہم حصہ ہیں اور مسلسل نمو پا رہے ہیں یو اے ای کا اہم تجارتی شہر دبئی ہے جہاں پر بہت سے پاکستانی سیاستدانوں نے اپنی رہائش بھی رکھی ہوئی ہے۔
ہر سال لاکھوں پاکستانی سیر وسیاحت اور کاروبار کے لیے بھی دبئی جاتے رہتے ہیں دبئی متحدہ عرب امارات کا ایک خوبصورت شہر ہے جسے ملک کے سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے دبئی اپنی شاندار صنعتوں، تعمیرات و رہائش کے عظیم منصوبہ جات، کھیلوں کے شاندار ایونٹس اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے اندراج کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے یہ شہر صنعتوں کے علاوہ سیاحت کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس وقت شہر میں جاری عظیم تعمیراتی منصوبے دنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوے ہیں دبئی کا دنیا کے 25 مہنگے ترین شہروں میں بھی شمار ہوتا ہے 1833ء میں بنی یاس قبیلے سے تعلق رکھنے والے تقریباً 800 افراد مکتوم خاندان کی سربراہی میں خلیج کے دہانے پر آ کر آباد ہوئے۔ خلیج ایک قدرتی بندر گاہ تھی اور دبئی جلد ہی ماہی گیری، ہیروں اور سمندری تجارت کا مرکز بن گیا۔
بیسویں صدی کے آغاز تک دبئی ایک کامیاب بندرگاہ بن گئی تھی 1930 تک دبئی کی آبادی تقریباً بیس ہزار تھی جن میں چوتھائی حصہ تارکین وطن لوگوں کا تھا۔ 1994 میں تیل کی دریافت کے بعد شیخ رشید نے تیل کی آمدنی کو دبئی کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لیے استعمال کیا دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ میں ایک نئی پورٹ اور ٹرمینل بلڈنگ تعمیر کی گئی۔ رن وے کے وسعت کے منصوبہ کی تکمیل قابل عمل آئی تاکہ ہر قسم کے جہازوں کی نقل وحمل کو برداشت کر سکے۔ دنیا میں انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی سب سے بڑی بندرگاہ جبل العلی کے مقام پر تعمیر کی گئی اور بندرگاہ کے گرد فری زون بنایا گیا۔ اب دبئی کی تعمیر کے فارمولہ کا انکشاف ہر ایک پر واضع ہونے لگا ہے۔ ایک واضح تصور والی قیادت – اعلیٰ معیاری بنیادی ڈھانچہ، نوآبادیوں کے لیے دوستانہ ماحول، ذاتی اور کاروباری منافع پر صفر ٹیکس اور بہت کم درآمدی ڈیوٹی۔ نتیجتاً دبئی، مصر سے لے کر برّ صغیر اور جنوبی افریقہ سے لے کر اب سی آئی ایس کہلانے والے ممالک تک پھیلے ہوئے خطے کا، تجارتی اور سیاحی مرکز بن گیا۔
1940 سے شیخ زید بن سلطان النہیان نے جو اس وقت ابوظہبی کے حاکم تھے اور شیخ رشید بن سعید المکتوم نے اس خطے میں عرب امارات کی ایک فیڈریشن بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ 1970 میں جب دوبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ اور 1972 میں راس الخیمیہ، متحدہ عرب امارات بنانے کے لیے متحد ہوئے تو ان کا یہ خواب تعمیر و تعبیر ہوا۔ آخر میں اپنے پاکستانیوں سے بلخصوص لاہوریوں اور سندھی بھائیوں سے درخواست ہے کہ دھواں پیدا کرنے والی گاڑیاں کچھ دن کے لیے بند کردیں کیونکہ ماہر نے خبردار کردیا ہے کہ فضائی آلودگی پاکستانی شہریوں کی عمر لگ بھگ سوا چار سال گھٹا رہی ہے اور اس فضائی آلودگی کو جانچنے کے لیے کسی مانیٹر کی ضرورت نہیں جب آسمان نیلے کے بجائے سرمئی نظر آنے لگے، حدنگاہ کم ہوجائے، عمارتیں دھندلی نظر آنے لگیں اور سانسوں کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے آلودہ ذرات طبیعت بوجھل کرنے لگیں تو سمجھ جائیں کہ آپ انتہائی آلودہ فضاں میں سانس لے رہے ہیں لاہور اور کراچی میں یہ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب یہ محسوس ہونے لگی ہے یہ فضائیں آپ سے صحت مند زندگی گزارنے کا حق چھین رہی ہیں لاہورکی فضاں میں 24 گھنٹے گزارنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے 10کے قریب سگریٹ سلگائے ہوں۔
ائیر کوالٹی انڈیکس لائف کے مطابق فضائی آلودگی پاکستان کے شہریوں کی اوسط عمر سے سوا چار سال کے قریب گھٹارہی ہے جب کہ لاہور کی آلودہ فضاں میں سانس لینے والوں کی اوسط زندگی کے 5 سال کم ہو رہے ہیں۔ ائیرکوالٹی لائف انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا چوتھا آلودہ ترین ملک بن گیا ہے، پاکستان میں تقریبا 21 کروڑ افراد آلودگی کا شکار ہیں، آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی اوسط عمر 3 سے 4 سال کم ہورہی ہے ملک میں 1998 کے بعد سے اوسطا سالانہ 20 فیصد آلودگی بڑھی جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ آلودگی میں سر فہرست ہیں اگر ہم احتیاط کریں تو صاف آب و ہوا سے کراچی کے رہائیشیووں کی اوسط عمر میں 3.6 سال کا اضافہ ہوسکتا ہے لاہور اور اسلام آباد کے رہائشیوں کی اوسط عمر میں بالترتیب 5 اور 4 سال کا اضافہ ممکن ہے اس وقت پنجاب میں بزدار سرکار فضائی آلودگی پرقابوں پانے میں بھر پور کوشش کررہی ہے اس لیے ہمیں اس سلسلہ میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ اس آلودہ ماحول سے چھٹکارا پا سکیں۔