مرگی مرض کی طویل تاریخ رکھنے والے افراد کے دماغ تیزی سے بوڑھے ہوجاتے ہیں جو ڈیمنشیا کی نشوونما کے لیے مشکلات کو بڑھا سکتا ہے۔
یہ نئی تحقیقی بتاتی ہے کہ مرگی کے شکار لوگوں کے دماغ ان لوگوں کے دماغوں سے تقریباً 10 سال زیادہ پرانے دکھائی دیتے ہیں جنہیں مرگی کی بیماری نہیں۔
مرگی کے مریضوں میں علمی صلاحیت کا زوال بھی جلد آتا ہے، بشمول یادداشت اور استدلال کے مسائل بھی اور دماغی اسکینوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو الزائمر کی بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے دماغی عمر کا بڑھنا اور سوچ اور یادداشت میں تبدیلیاں ان لوگوں میں زیادہ واضح ہوتی ہیں جن کے مرض کا صحیح سے انتظام نہیں کیا جاتا۔
مطالعہ کے مصنف اور یونیورسٹی آف وسکونسن سکول آف میڈیسن میں نیورو سائیکالوجی کے ایمریٹس پروفیسر بروس ہرمن نے کہا، “ایسا لگتا ہے کہ بچپن سے شروع ہونے والی مرگی عمر بڑھنے کے عمل کو تیز کر سکتی ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جو بچپن سے 60 کی دہائی تک مرگی کا شکار رہتے ہیں۔