فرینکفرٹ (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن شہر فرینکفرٹ ام مائن میں ایک ’افغان جلا وطن آن لائن یونیورسٹی‘ قائم کی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد افغانستان میں اور وہاں سے فرار ہونے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افغان باشندوں کو مزید تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہے۔
ورلڈ یونیورسٹی سروس (WUS) کی جرمن کمیٹی کی جانب سے اس سلسلے میں منگل کو شہر ویسباڈن میں ایک کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر اس کا اعلان کیا گیا۔ اس کا مقصد افغانستان میں وہاں کے باشندوں اور وہاں سے فرار ہو کر بیرون ممالک سکونت اختیار کرنے والے افغان باشندوں کو اعلیٰ معیاری تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہے۔ جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کئی دہائیوں سے اپنے عوام کے لیے اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ اب ہندو کُش کی اس ریاست پر ایک بار پھر انتہا پسند طالبان کے غلبے اور اقتدار میں آنے کے بعد وہاں کے مقامی باشندوں کے لیے معیاری تعلیم کا حصول پھر بہت مشکل ہو گیا ہے۔
رواں سال سقوط کابل اور طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد جہاں دیگر سماجی اور ترقیاتی اداروں اور پروجیکٹس کے آگے بڑھنے کے امکانات معدوم ہوگئے وہیں تعلیم جیسے بنیادی شعبے کو شدید نقصان پہنچنے کے آثار نمایاں ہیں۔ تعلیمی ادارے ویران پڑے ہیں اور خاص طور سے لڑکیوں اور خواتین کا تعلیمی مستقبل ایک بڑا سوالیہ نشان بن چُکا ہے۔ افغانستان میں کبھی 150 یونیورسٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سے اکثر بند پڑی ہیں۔ قریب تین لاکھ ستر ہزار افغان طلبا کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے امکانات کی سخت کمی پائی جاتی ہے۔ طلبا اور سائنسدانوں کو یونیورسٹیوں تک رسائی سے محروم کر دیا گیا۔ لس کے علاوہ ہیومینیٹیز ،سوشل سائنسز کے شعبے بند کر دیے گئے ہیں۔
ورلڈ یونیورسٹی سروس (WUS) کی جرمن کمیٹی کی طرف سے فرینکفرٹ ام مائن میں آئندہ جمعے اور ہفتے کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اس میں افغان تعلیمی اداروں کے اعلیٰ سطحی نمائندے، افغانستان کے جلا وطن سیاستدان، یورپی پارلیمنٹ سمیت جرمن اور دیگر یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔ ورلڈ یونیورسٹی سرورس اور اس کے ساتھ کام کرنے والے طلبا، سائنسدانوں، اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک کے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم افغان باشندوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس جرمن پیش قدمی کا مقصد افغان طلبا، محققین اور اساتذہ کو خاص طور پر تیار کردہ ڈیجیٹل فارمیٹس کی مدد سے اپنا تعلیمی اور تحقیقی سفر جاری رکھنے کے قابل بنانا ہے۔
اس دو روزہ کانفرنس کے دوران آن لائن مطالعاتی پروگرام کے مواد اور اس کے تکنیکی ڈھانچے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس ‘جلا وطن آن لائن یونورسٹی‘ کے ایجنڈا میں بنیادی تنظیمی اور مالی ضروریات اور مطلوبہ امداد کے ساتھ ساتھ اس یونیورسٹی کے لیے ایک قانون کی تشکیل بھی شامل ہے۔
ورلڈ یونیورسٹی سرورس کے چیئرمین کمبز غوامی اس منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں،” افغانستان کے لیے مستقبل کے طویل مدتی امکانات کی منصوبہ بندی اہم ہے۔ اس میں افغان ماہرین تعیلم اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک جمہوری معاشرے کی تعمیر کا واحد راستہ ہے جو قائم رہے گا۔‘‘ غوامی نے اس امر پر بھی زور دیا کہ ہزاروں افغان طلبا اور ماہرین و سائنسدان اب بھی طالبان حکومت سے فرار ہونے کے مواقع کی تلاش میں ہیں۔
بین الاقوامی تعلیمی برادری کو ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ورلڈ یونیورسٹی سروس (WUS) کے اپنے بیانات کے مطابق یہ پیش قدمی 1920ء سے تعلیم کے حصول کے انسانی حقوق کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔