کرسمس کے تہوار سے قبل مغربی یورپی ممالک میں کرونا کے نئے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کرونا وائرس کی اس تازہ ترین لہر سے یورپ میں خوف کی نئی لہر کی زد میں ہے ۔ وائرس کے نئے ویرینٹ سے زیا خطرناک ہے جس نے تقریباً دنیا کے تمام براعظموں میں متعدی مرض کی لہر کو ہوا دی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے پینل نے اس ویرینٹ کو ‘اومیکرون’ کا نام دیا ہے اور اس کی درجہ بندی تیزی سے منتقل ہونے والے وائرس کے طور پر کی گئی ہے،۔
یہ اس سے قبل غالب وائرس ڈیلٹا ویرینٹ کی ہی قسم ہے،جس کے کیسز یورپ اور امریکا میں اب بھی سامنے آرہے ہیں اور یہ لوگوں کی اموات کی وجہ بن رہا ہے۔دنیا کے متعدد ممالک نے جنوبی افریقہ سفر کرنے والے ، وہاں سے آنے والے اور پروازوں پر پابندی لگانے کے اعلانات پر شدید احتجاج کرتے ہوئے پابندیوں کو ڈریکونئین، غیر سائنسی اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے برعکس قرار دے دیا ہے ۔یوروپ میں ڈبلیو ایچ او کے دفتر کے ڈائریکٹر ہانس کلوگ نے کہا ہے کہ صحت عامہ کی ایمرجنسی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ خطے کے بیشتر ممالک میں کیسز میں ویکسینیشن کی ناکافی کوریج، احتیاطی تدابیر میں نرمی کے اقدامات اور ڈیلٹا کے پھیلاؤ کی وجہ سے موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں سخت سردی کا سامنا ہے۔اسی سلسلہ میں یورپی کمشنر برائے صحت امور سٹیلا کیریاکیڈس نے کہا ہے کہ وبا ایک بار پھر دروازے پر دستک دے رہی ہے اور اسے روکنے کے لیے اب تک دستیاب واحد ہتھیار ویکسین ہے۔۔
یوروپ دنیا کے وبائی امراض کے منظر نامے میں دوبارہ آگیا ہے جس کی وجہ سے کچھ حکومتوں کو بندش کے اقدامات کو دوبارہ نافذ کرنے پر غور کرنے کے سلسلہ میں آمادہ ہونے پر مجبور ہونا پڑا ہے جو عوامی طور پر مقبول نہیں ہے۔موجودہ حالات یورپ کرونا کی وبا کے لیے ایک نیا مرکز بن گیا ہے، کیونکہ وہاں دنیا میں اوسطاً سات دنوں میں ہونے والے کیسوں اور تازہ ترین اموات کی تعداد میں سے نصف ریکارڈ کیا گیا ہے اور گزشتہ سال اپریل کے بعد سے سب سے بلند ترین سطح ہے جب سب سے پہلے اٹلی میں وائرس نے ادھم مچایا تھا۔کرونا کے وائرس کی نئی شکل نے ساری دنیا پر موت کا خوف طاری کردیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے نئے کرونا وائرس کو اب تک کے تمام وائرسوں کے مقابلے زیادہ خطرناک قرار دیاجارہا ہے،۔
اتنا خطرناک کہ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں نے جنوبی افریقہ سے ‘رشتہ’ توڑنا شروع کردیا ہے، وہاں سے آنے والی پروازیں روک دی گئی ہیں۔ نئے وائرس نے دنیا کی معیشت پر بھی اثر ڈالا ہے۔ شیئر بازار میں زبردست گرائوٹ آئی ہے۔ دنیا جو ابھی بھی کورونا کی پہلی، دوسری اور کہیں کہیں تیسری لہر سے سنبھل نہ پائی تھی پھر سے لڑکھڑا گئی ہے۔ پہلی، دوسری اور تیسری لہر میں بھی غریب ہی کو سب سے زیادہ پریشانیاں جھیلنی پڑی تھیں اور اب یہ جو نئی بلا وارد ہوئی ہے یہ بھی غریبوں پر ہی سب سے زیادہ اثر انداز ہوگی۔ افریقا میں کرونا وائرس کی نئی قسم پھیلنے کے باعث پاکستان نے ہانگ کانگ اور 6 افریقی ممالک کے لیے سفری پابندیاں عائد کردیں۔ ج
ن ممالک پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں جنوبی افریقا، موزمبق، نمیبیا، لیسوتھو اور بوٹسوانا شامل ہیں۔ ان ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کی سہولت کے لیے5 دسمبر تک سفر کی اجازت ہے، جبکہ مسافروں پر صحت، ٹیسٹنگ پروٹوکول لاگو رہیں گے۔ تمام ساتوں ممالک کو کیٹگری سی میں شامل کیا گیا ہے۔ ان ممالک سے مسافروں کی براہ راست اور بالواسطہ آمد پر فوری پابندی ہوگی۔یورپی ممالک ایک جانب کرونا کی نئی لہر سے دوچار ہیں تو دوسری جانب انہیں کرونا کی بندشوں اور پابندیوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کا بھی سامنا ہے جبکہ مظاہروں کے دوران پھوٹ پڑنے والے تشدد کے واقعات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔یورپ اورآسٹریلیا میں ہزاروں افراد کورونا پابندیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا۔ نیدر لینڈ کے شہر روٹرڈیم میں دوسرے دن بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور کرونا پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ پولیس اورمظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
احتجاج کا دائرہ دی ہیگ اور ایمسٹرڈیم شہروں تک پھیل گیا ہے۔آسٹریا کے شہر ویانا میں 40 ہزار سے زائد افراد نے ریلی نکالی اور پابندیوں کو آمریت قرار دیتے ہوئے اس ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ بیلجیئم کی سرحد کی قریب جنوبی شہر بریڈا میں سیکڑوں افراد نے مارچ کیا۔ کروشیا کے دارلحکومت زغرب میں بھی احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ آسٹریلیا میں کورونا ویکسین لازمی قرار دینے کے خلاف ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ سڈنی، برسبین اور پرتھ میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔یورپ میں کرونا کی شدت میں ایک بار پھر اضافے کے بعد مختلف ملکوں نے لاک ڈاون دوبارہ نافذ کرنے اور بہت سی سرگرمیاں محدود کرنے کا اعلان کر دیا جس کے خلاف پورے براعظم میں شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق، کرونا پروٹوکول کے خلاف یورپی ملکوں کے متعدد شہروں میں پچھلے کئی روز سے پرتشدد مظاہرے کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے صورتحال انتہائی کشیدہ بنی ہوئی ہے۔یورپی ممالک ایک جانب کورونا کی نئی لہر سے دوچار ہیں تو دوسری جانب انہیں کورونا کی بندشوں اور پابندیوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کا بھی سامنا ہے جبکہ مظاہروں کے دوران پھوٹ پڑنے والے تشدد کے واقعات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔کرونا پروٹوکول کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے پچھلے چند روز کے دوران ہالینڈ، بیلجیم، اٹلی ، آسٹریا اور کروشیا کے مختلف شہروں میں، سرکاری سطح پر عائد کی جانے والی بندشوں کے خلاف مظاہرے کیے جو کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد پرتشدد شکل اختیار کرگئے۔ م
ظاہروں کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں اور سیکڑوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔کرونا پروٹوکول اور بندشوں کے خلاف جمعے کو ہالینڈ سے شروع ہونے والے مظاہرے اس ملک کے کئی شہروں میں پھیل گئے اور ہیگ، ایمسٹرڈم اور روٹر ڈم میں ہونے والے مظاہروں کے دوران تشدد بھی پھوٹ پڑا۔آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی کرونا پروٹوکول کے نفاذ کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا جو شروع میں پرامن رہا لیکن آخر کار پولیس کی مداخلت کے بعد پرتشدد رخ اختیار کر گیا۔ادھر فرانس میں یلوجیکٹ ایجیٹیشن کے آغاز کی تیسری سالگرہ کے موقع پر دارا لحکومت پیرس میں احتجاج کی نئی لہر دکھائی دی اور اس بار سڑکوں پر اترنے والے مظاہرین کرونا کی بندشوں، لازمی ویکسینیشن اور بچوں کو ویکسین لگوانے جیسے صحت کے قوانین کی مخالفت کر رہے تھے۔اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان متعدد مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہوئے۔ بیلجیئم کے دارالحکومت بریسلز میں، جہاں یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹر بھی واقع ہے، کئی ہزار افراد نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے اور کورونا کی وجہ سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف نعرے لگائے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق بریسلز میں ہونے والے مظاہرے میں کم سے کم پینتس ہزار افراد شریک تھے۔
یہ مظاہرے اس وقت پرتشدد شکل اختیار کر گئے جب پولیس نے کئی مقامات پر مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسوگیس کے گولے پھنیکے جبکہ مظاہرین نے پولیس پر پتھر اور دوسری اشیا برسائیں۔ یاد رہے کہ چند روز پہلے عالمی ادارہ صحت نے بر اعظم یورپ میں کورونا کے پھیلاؤ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کورونا کی بندشیں سخت نہ کی گئیں تو آئندہ موسم بہار کے دوران اس براعظم میں پانچ لاکھ سے زائد افراد کی موت واقع ہو سکتی ہے۔اس وباء سے ظاہر ہوچکا ہے کہ موجودہ سیاست کے سانچے میں کچھ داخلی خامیاں موجود ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کو تقسیم کرتی ہے اور صرف اور صرف مفاد پرستی کے زاویے سے ہی مسائل کو دیکھتی ہے۔ بہتر دنیا کے لئے ہمیں اس ذہنیت کو بدلنے کی خاطر نئے سوچ اور اپروچ کی ضرورت ہوگی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عالمی وسائل کو کس طرح کی سرگرمیوں میں ضائع کیا جاتا ہے جس کا مقصد دوسروں کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں صحت کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ تقریباً تمام ممالک اس قدر اہم عوامی خدمت پر بہت کم خرچ کررہے ہیں۔ پوری دنیا میں صحت کا نظام ایکسپوڑ ہوگیا ،یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کرونا وباء کے ساتھ صحت کا ڈھانچہ جواب دے گیا اور امریکہ سے لیکر سبھی مغربی و یورپی ممالک کو ہاتھ کھڑا کرنے پڑے۔جہاں تک ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے ممالک کا تعلق ہے تو وہاں اس وباء کی وجہ سے لوگ کس طرح آکسیجن کے ایک ایک سیلنڈر کیلئے ترستے رہے اور آکسیجن کی عدم دستیابی میں جان دیتے رہے ،وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے مناظر پوری دنیا نے دیکھ لئے۔بلاشبہ اس آفت کی وجہ سے اصلاح احوال کی کوششیں شروع ہوئیں اور صحت کے اخراجات میں ہر جگہ اضافہ کیاگیا تاہم اس کے باوجود بھی وہ ناکافی ہے۔
انسانیت بہتر ہوگی اگر مفکرین اور سیاسی رہنما اس سنگین جرم کو اجاگر کرتے رہیں گے اور حکومتوں کو اس شعبے پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کریںگے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عالمی امور اس میں شامل لوگوں پر پڑنے والے اثرات سے قطع نظرکس طرح حل کئے جاتے ہیں۔ سیاسی اور تذویراتی نظریے لوگوں کو مکمل طور پر بے خبر رکھتے ہوئے تیار کئے جاتے ہیں۔سامان حرب و ضرب پر پورے ملک کے وسائل صرف کئے جاتے ہیں اور کسی سے پوچھا تک نہیں جاتا ہے۔مانا کہ سیاسی اور تذویراتی مسائل اہم ہیںاور ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی لیکن مہذب اور جمہوری دنیا میں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ بم و بارود بنانے پر خرچ کریں اور لوگوںسے پوچھیں تک گے بھی نہیں۔اگر عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں تو عوام کو اعتماد میں لئے بغیر ان کی تقدیر کے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں اور کوشش کی جانی چاہئے کہ لوگوں کے ٹیکس سے وصول ہونے والی زیادہ سے زیاد ہ رقم لوگوں کی بہبود پر ہی خرچ ہو۔ ایک آخری بات جواس وبائی مرض نے سکھائی ہے،وہ یہ ہے کہ اگر ہم ماحولیات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوئے تو اس کے اثرات پوری دنیا کے لئے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ہماری ذمہ داریاں ، بطور افراد ، بطور ادارہ ، اور عالمی رہنما کئی گنا ہیں اور ہمیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے جتن کرنے چاہئیں کیونکہ ہمیں ایک خاص مقصد کے تحت تخلیق کیاگیا ہے اور وہ مقصد انسانیت کی فلاح وبہود ہے۔