فیصل آباد (اصل میڈیا ڈیسک) فیصل آباد میں چار خواتین کو برہنہ کر کے سرعام گھسیٹنے کی ویڈیو کے منظرعام پر آنے پر ملک میں کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر اس طرح کے واقعات کی روک تھام میں حکام ناکام کیوں ہو جاتے ہیں؟
اس مقدمے میں اب تک پانچ ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ فیصل آباد تھانہ ملت ٹاؤن کے مطابق آج ان ملزمان کو ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں پولیس کو تین روزہ ریمانڈ کی اجازت مل گئی۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ 6 دسمبر کی صبح ملت ٹاؤن پولیس اسٹیشن فیصل آباد میں رونما ہوا۔ ویڈیو کے سوشل میڈیا پر آنے سے پاکستان کے کئی حلقوں میں اس پر بحث شروع ہوگئی جبکہ ملک کی کئی تنظیموں نے اس واقعے کو انتہائی شرمناک قرار دیا۔
پولیس کارروائی فیصل آباد کے تھانہ ملت ٹاؤن کے سب انسپکٹر، جو اس مقدمے میں تفتیشی افسر بھی ہیں، نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،” پانچ ملزمان کو اس مقدمے میں گرفتار کیا جا چکا ہے اور اس کی مختلف زاویوں سے تفتیش ہورہی ہے۔ ملزمان کا دعویٰ ہے کہ یہ خواتین ان کی دکان میں چوری کرنے کے لیے آئی تھیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے ان کو پکڑ کے تشدد کیا اورانہیں برہنہ کر کے گھسیٹا، جس کی قانون میں سخت سزا ہے۔ اس مقدمے میں عمر قید بھی ہو سکتی ہے اور سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔‘‘
تفتیشی افسر اکبر علی نے مزید کہا کہ خواتین کا موقف ہے کہ انہیں پیاس لگ رہی تھی اور وہ پانی پینے کے لیے ان کی دکان میں داخل ہوئیں اور جیسے ہی وہ دوکان میں داخل ہوئیں، تو دکانداروں نے انہیں کہا کہ تم چوری کرنے آئی ہو۔ انہیں دکان میں بند کر دیا اور بعد ازاں مارا پیٹا اور ان کو برہنہ کرکے گھسیٹا بھی۔
قانونی کارروائی کے حوالے سے اکبر علی کا کہنا تھا کہ ملزمان کا تین دن کا ریمانڈ دے دیا گیا ہے اور تین دن کے اندر تفتیش کرکے ان کو عدالت میں دوبارہ پیش کیا جائے گا۔ ان کے بقول، ” اس کے علاوہ ہم سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی اپنے قبضے میں لے رہے ہیں اور ان کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور تمام حقائق عدالت کے سامنے ثبوت کے ساتھ پیش کی جائیں گے۔‘‘
شرمناک اور قابل مذمت اس واقعہ پر خواتین تنظیمیں چراغ پا ہیں اور ملک بھر میں حقوق نسواں کی تنظیمیں اس واقعے کی مذمت کررہی ہیں۔ ویمن ایکشن فورم سے تعلق رکھنے والی مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ اس شرمناک واقعے نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کردیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” فیصل آباد کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم مردہ ہو چکے ہیں اور ہمارا ضمیر مر چکا ہے۔ اس طرح کے واقعات ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کے تحت ہم نے ہجوم کے تشدد کو فروغ دیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،” نواب پور کے واقعے کے بعد یہ بہت دلخراش واقع ہے۔ ہم اس حوالے سے خواتین تنظیموں سے صلاح و مشورہ کر رہے ہیں اور کوئی لائحہ عمل تیار کریں گے۔‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی حقوق نسواں کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام اس لیے نہیں ہورہی کیوں کہ لوگوں میں قانون کا خوف نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” اس کے علاوہ پدر شاہی نظام بھی اس کا ذمہ دار ہے، جس میں عورت کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ مظلوم خواتین کا نچلے طبقے سے تعلق ہونا بھی ایک عنصر ہے کیونکہ مجرموں کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اثر ورسوخ کی بنیاد پر چھوٹ جائیں گے۔‘‘
خواتین کی بے حرمتی کے واقعات پاکستان میں اس طرح کا یہ واقعہ پہلا نہیں بلکہ جنرل ضیاء کے دور میں نواب پور کا ایک مشہور واقعہ ہوا تھا جس میں خاندانی دشمنی پر ایک خاندان کے افراد نے دوسرے خاندان کی خواتین کو برہنہ کرکے سرعام گھمایا تھا۔ کچھ برسوں پہلے خیبر پختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا۔ سانحہ نواپور پر اتنا احتجاج ہوا تھا کہ اس پر کچھ ڈرامہ نگاروں نے ڈرامے بھی لکھے۔ تاہم اس دلخراش واقعے کے بعد بھی معاشرے میں کئی ایسے شرمناک واقعات ہو چُکے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہوئی، جس میں مختاراں مائی کا بھی ایک واقعہ شامل ہے۔
واقعے کی ویڈیوز اس واقعے کے حوالے سے مختلف ویڈیوکلپس بھی منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے جو کلپ آیا اس میں دکان دار ان خواتین پر تشدد کر رہے ہیں جبکہ بعد میں آنے والے ایک کلپ میں خواتین کو دکان کے اندر جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان خواتین میں سے کسی ایک نے کچھ چوری کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ تاہم تفتیشی افسر اکبر علی کا کہنا ہے کہ دکانداروں نے ان خواتین کو چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں نہیں پکڑا بلکہ ان کا موقف یہ تھا کہ انہیں شک تھا کہ یہ خواتین چوری کرنے کے لیے داخل ہوئی ہیں اس لیے انہیں پکڑ کے مارا پیٹا گیا۔
انصاف ہوگا پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ حکومت ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،” ملزمان کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ کسی بھی صورت اپنا اثر رسوخ کا استعمال نہیں کرسکتے۔ قانون کے مطابق ان پر مقدمہ چلایا جائے گا اور قانون کے مطابق ان کو سزا دی جائے گی پاکستان آئین اور قانون کے مطابق چلتا ہے یہاں کوئی جنگل کا قانون نہیں ہے کہ طاقتور جس پر چاہے ظلم کرے۔ ہماری ہمدردیاں مظلوم خاندان کے ساتھ ہیں اور ہم پوری کوشش کریں گے کہ ان کو انصاف ملے۔‘‘