یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی جوہری معاہدے کے حوالے سے تہران حکومت اور یورپی اقوام کے درمیاں مذاکراتی عمل ویانا میں جاری ہے۔ کئی معاملات پر فریقین میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔
یورپی یونین کے ایک سینیئر اہلکار نے نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ویانا میں ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں پیشرفت منطقی ہے۔ یورپی اقوام اور ایران سن 2015 کی جوہری ڈیل کو بچانے کی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس مذاکراتی عمل میں کئی امور پر فریقین کا موقف سخت ہے اور پیچیدگیوں کو سلجھانے میں مذاکرات کاروں کو مشکل کا سامنا ہے۔
یورپی یونین کے سینیئر اہلکار نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ مذاکرات میں کئی اہم معاملات پر بات ہونا ابھی باقی ہے اور حتمی مرحلے تک ان پر بات چیت جاری رہ سکتی ہے۔ اس اہلکار نے واضح کیا کہ مذاکراتی عمل منطقی انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے یہ بات ایران کی نئی مذاکراتی ٹیم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یورپی مذاکرات ایرانی وفد کی مستقبل سے وابستہ توقعات کو مثبت خیال کرتے ہیں۔ یورپی یونین کے اہلکار کے مطابق مذاکرات میں سات یا آٹھ نکات ایسے ہیں جو اس ڈیل کے حوالے سے نہایت اہم ہیں اور ابھی اُن میں پیش رفت ضروری ہے۔
عالمی طاقتیں اس وقت ایران کے ساتھ قریب قریب معطل شدہ سن 2015 کی جوہری ڈیل کو فعال بنانے کے لیے مذاکرات ویانا میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کے ذرائع کے مطابق فریقین ایک مسودے پر گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ابھی تک ایرانی حکام کا موقف سخت ہے۔
ایران کے مذاکرات کارِ اعلیٰ علی باقری کنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اُس موقف پر قائم ہیں، جس کو گزشتہ ہفتے یورپی ممالک کے سفارتکاروں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ باقری کنی اس وقت ایرانی وزارتِ خارجہ کے نائب سربراہ ہیں۔
کنی نے یہ بھی بتایا تھا کہ یورپی مذاکراتی ٹیم نے ان کی پیش کردہ تجاویز پر غور شروع کر دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تمام نکات جون تک کی بات چیت کی روشنی میں مرتب کیے گئے تھے۔
جون کے بعد ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کا نیا دور نومبر کے اختتام پر شروع ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران مذاکرات میں تعطلی کی وجہ یورپی اور امریکی حکام نے ایران کے نئے مطالبات کو قرار دیا تھا۔
ایران کے ساتھ سن 2015 کی ڈیل کو محفوظ رکھنے میں امریکا بالواسطہ شریک ہے کیونکہ تہران حکومت امریکا کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے سے انکاری ہے۔ اس مذاکراتی عمل میں عالمی طاقتوں فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس اور چین براہ راست شریک ہیں۔
سن 2015 کی ایرانی جوہری ڈیل سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں علیحدگی اختیار کر کے اس کسی حد تک غیر فعال کر دیا تھا۔ بعد میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر انتہائی سخت اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ایران بارے پالیسی میں تسلسل قائم رکھا ہوا ہے۔