خلاوں کی بے کرانی میں موجود ستاروں اور کہکشاوں کی حرکت ہو ،درختوں پہاڑوں اور دریاوں کے پرکشش مناظر ہوں، طائروں کی دلکش ومترنم آواز ہو یا مختلف النوع حیوانات کی زندگی میں موجود نظم و ضبط، کائنات کی ہر شے زبان حال سے یہ بیان کر رہی ہے کہ اس کے تخلیق کار نے اسے کس بہترین ترتیب و توازن سے بنایا ہے کہ اس میں کہیں کوئی سقم دکھائی نہیں دیتا، ساتھ ہی اس مہربان رب نے یہ بھی فرما دیا کہ توازن میں خلل نہ ڈالو۔( سورہ رحمٰن:8) لیکن کیا کہئے حضرت انسان کی فطرتِ ہوس پرست کو کہ اس نے نت نئی آسائشوں کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے اس حسین و متوازن کرہ ارض کی ترتیب کو کچھ اس طرح بے ترتیب کر دیا کہ بے شمار معاشرتی، معاشی و ماحولیاتی مسائل صفحہ ہستی پر نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ عالمی حدت ان ہی ماحولیاتی مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ عالمی حدت دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کا نام ہے.جس کی بنیادی وجہ گرین ہاوس ایفیکٹ) ہیںیہ گیسوں کے ذریعے سورج کی تپش کو روکے رکھنے کا عمل ہے ، جس کے نہ ہونے پر دنیا کے منفی 18ڈگری سیلسیئس پر جم جانے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ مسئلہ اس اثر میں ہونے والا مسلسل اضافہ ہے جو مختلف انسانی سرگرمیوں کے ذریعے گرین ہاوس گیسوں کے بے تحاشا اخراج کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
عالمی حدت کی ایک نسبتاً چھوٹی وجہ اوزون تہہ میں ہونے والی تخفیف بھی ہے جو ان ہی گرین ہاوس گیسوں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ اوزون تہہ دراصل ایک حفاظتی غلاف ہے جو کرہ ہوا کی قائمہ تہہ میں موجود ہے درختوں کی بے تحاشہ کٹائی کرہ ہوا میں سبز گھر گیسوں کے بڑھنے کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔معلوم ہوا کہ مسئلہ کی جڑ گرین ہاوس گیسوں کا اخراج ہے جو بڑی مقدار میں روایتی ایندھن کے جلنے سے پیدا ہورہی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربن، میتھین ،فریونز اور ہیلونز وغیرہ گرین ہاوس گیسیں کہلاتی ہیں۔ عالمی حدت صرف اس دنیا میں گرمی بڑھ جانے کا نام نہیں ماہرین کا انتباہ ہے کہ اس کے اثرات اس قدر سنگین ہیں کہ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی کو ختم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ گلیشیرز کے پگھلنے کی وجہ سے گزشتہ صدی کے دوران سطح سمندر میں کئی سینٹی میٹر کا اضافہ ہو چکا ہے اور اس صدی کے خاتمے تک اس میں ایک میٹر تک کے اضافہ کا امکان ہے۔ عالمی حدت بڑھنے سے قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طوفان اور سیلاب تواتر کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں آ رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مستقبل قریب میں عالمی تپش میں اضافے سے دنیا کے کچھ حصے قحط سالی کی زد میں ہوں گے اور کچھ حصے سیلابی علاقے بن جائیں گے۔قحط سالی کی وجہ سے بھوک کے حالات پیدا ہوں گے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہوں گی اسی طرح زیادہ بارش والے علاقوں میں زمینیں دلدلی بن جائینگی ،ان میں حشرات کی بہتات ہوگی جس سے بیماریاں پھیلیں گی اور اموات ہوں گی۔ عالمی حدت انسانی معیشت کو بھی بے حد نقصان پہنچا رہی ہے۔ماہرین کے مطابق 2050ء تک کئی ملین لوگوں کو موسمی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑیگی کیونکہ سطح سمندر میں اضافے سے سیکڑوں جزائر اور ساحلوں پر آباد علاقے زیر آب آ جائیں گے۔
عالمی حدت صرف انسانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ دیگر حیاتیتنوع کے لئے بھی بے حد تباہ کن ہے کیونکہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے تمام ماحولیاتی نظام میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور اس نظام میں موجود جانداروں کو غذا کی تلاش میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ دین اسلام ہی وہ ضابطہ حیات ہے جو ہمیں گود سے گور تک زندگی بسر کرنے کی سیدھی اور سچی راہ دکھاتا ہے۔ مندرجہ بالا پیش کردہ حقائق کی روشنی میں یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ اس مسئلہ کا اصل سبب گرین ہاوس گیسوں کا بے تحاشہ اخراج ہے۔?خر ان سبز گھر گیسوں کے اخراج کی وجہ کیا ہے ؟معدنی ایندھن کا احتراق! اور یہ کیوں ہو رہا ہے کیونکہ کوئلے اور تیل پر ہی عالمی معیشتوں کا استحکام قائم ہے۔ زیادہ سے زیادہ حاصل کر لینے کی ہوس نے آج انسانی ذہنیت کو اس قدر مادہ پرست بنا دیا ہے کہ اس کے لئے وہ جائز اور اور ناجائز میں تمیز بھول بیٹھا ہے اور اسی خودغرضانہ ذہنیت نے موسمی تبدیلی اور عالمی حدت جیسا خطرناک عفریت پیدا کیا ہے۔اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اعتدال کا راستہ ہی فلاح کا راستہ ہے۔ اسلام نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔
اعتدال اور میانہ روی اسلام کی ایسی صفات ہیں جو اس کے ہر معاملے اور حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہیں جس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ توانائی جو ختم ہوسکتی ہے اْس کے استعمال میں کس قدر ذمہ دارانہ طرز عمل اور احتیاط ضروری ہے۔ قرآن کریم میں جو رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے اور قدرتی ماحول ہمارے لئے بیش بہا عطیہ خداوندی ہے اور یہ تمام وسائل ہمارے لئے مسخر کئے گئے ہیں ، ہم ان کے استعمال کے لئے آزاد ہیں نہ کہ استحصال کیلئے۔ قرآن کریم میں جا بجا ارشاد ہوا ہے”حد سے تجاوز نہ کرو” جو واضح اشارہ ہے کہ ہمیں وسائل کے استعمال میں ایک حد قائم رکھنا ہے۔درختوں کی کٹائی جو گرین ہاوس گیسوں میں اضافے کی بڑی وجہ بن رہی ہے، کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ اگر قیامت برپا ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو اور وہ اسے لگا سکتا ہو تو اسے لگا دینا چاہئے۔
یہ فرمان ظاہر کرتا ہے کہ درختوں کی کیا اہمیت ہے اور کیسے درخت لگانا انسان کے لئے صدقہ جاریہ بن سکتاہے۔ اسلام ہمیں وسائل کا ذمہ دارانہ استعمال سِکھاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ۖنے وضو کرتے وقت پانی کے بے جا اسراف پر تنبیہ فرمائی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں وسائل کو کس قدر احتیاط سے زیر استعمال لانا ہے۔ ہم اپنے ہر عمل کیلئے بروز آخرت اس عظیم ہستی کے اگے جوابدہ ہے جس نے یہ تمام نعمتیں اسے عطا کی ہیں۔ جب یہ احساس کسی انسان میں پیدا ہو جاتا ہے تو وہ ازخود ذمہ دار بن جاتا ہے۔ القصہ مختصر اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ عالمی حدت پر قابو پانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم وسائل کا ذمہ داری کے ساتھ ،احتیاط سے استعمال کریں ختم ہوجانے والے وسائل کے متبادل ذرائع استعمال کریں۔ اپنی ساری معاشی سرگرمیاں چاہے وہ صنعتیں ہوں، زراعت ہو، نقل وحمل ہو یا کان کنی اس طرح قابو میں کریں کہ گرین ہاوس گیسیں کم سے کم خارج ہوں، دوسرے لفظوں میں ہمیں اپنی ترقی کی رفتار کوکم کرنے کی ضرورت ہے۔اور اسی میں ہی ساری انسانیت کی فلاح پو شیدہ ہے۔