یونان (اصل میڈیا ڈیسک) جیلیں وائرس کی افزائش کا مرکز ہوتی ہیں۔ تاہم جیل خانوں کی انتظامیہ نے کورونا کی وبا کے دوران کووڈ انیس کیسز، اموات اور یورپی جیلوں میں ویکسینیشن کے بارے میں بہت کم معلومات کا انکشاف کیا۔
کورونا وبا کے دوران اور کووڈ انیس کے اثرات سے گزرنے والے جیل کے قیدیوں کی صورتحال کے حوالے سے دنیا کے 32 ممالک کے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وبائی امراض کے دور میں کووڈ انیس کے مہلک عارضے نے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند قیدیوں کے ساتھ کیا کیا ؟
موسم سرما کی آمد زیادہ تر یورپی ممالک کی جیلوں میں قید انسانوں کے لیے انتہائی مشکل صورتحال ساتھ لانے کا سبب بنی۔ سردیوں کے ساتھ ساتھ کورونا کی چوتھی لہر نے تمام یورپی ملکوں کو باور کرا دیا کہ کورونا کا خاتمہ تو دور کی بات نئی لہر سے نمٹنا آسان نہ ہوگا۔ خاص طور پر جیلوں میں بند قیدیوں کے لیے۔
مختلف یورپی جیلوں کے مناظر یونان کی لاریسا جیل میں قید وانگیلیس اشٹاتھوپولوس کووڈ انیس وبائی مرض کے پھوٹنے اور پھیلنے کے دوران یورپی جیلوں میں مقید نصف ملین کے قریب قیدیوں میں سے ایک ہے۔ دیگر قیدیوں کی طرح اس کے لیے بھی اس کی جیل موذی وائرس کی آماجگاہ اور افزائش کی مثالی جگہ ہے۔ یہ جیل گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں سے بھری ہوئی ہے۔ حفظان صحت کے ناقص نظام میں ان قیدیوں کو گوناگوں خطرات کا سامنا ہے۔ وانگیلیس کے بقول،” جب گزشتہ دسمبر میں مجھے کووڈ انیس ہوا تب بیک وقت اس جیل کے نصف قیدی پہلے سے بیمار تھے۔ تقریباً ایک سو دس مربع میٹر رقبے پر قائم ایک وارڈ میں مجھے ساٹھ دیگر مریضوں کیساتھ رکھا گیا۔ آپ کی قسمت یا تو آپ شدید بیمار ہوں گے یا ہلکے پھلکے۔‘‘
یورپی ڈیٹا جرنلزم نیٹ ورک کے نیوز روم کیساتھ مل کر ڈوئچے ویلے نے 32 ممالک سے اعداد و شمار اکٹھا کیے۔ ان سے پتا چلا کہ جیلوں میں کووڈ انیس کے کتنے کیسز ہیں، اس کا شکار ہو کر کتنے افراد کی اموات ہوئیں، ویکسینیشن کے لیے کیا اور کس حد تک اقدامات کیے گئے، وغیرہ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ‘ پریزن پروگرام‘ کی ایک کنسلٹینٹ فیلیپا آلوس ڈا کوسٹا کہتی ہیں، ” بہت سی جیلیں قیدیوں کی گنجائش سے کہیں زیادہ بھری ہوئی ہیں اور ان میں جسمانی فاصلہ ممکن نہیں۔ لہٰذا جب وائرس ان جیلوں میں داخل ہو جائے تو تیزی سے ایک سے دوسرے تک منتقل ہونے لگتا ہے۔‘‘
فیلیپا آلوس ڈا کوسٹا کے مطابق جیلوں کے اندر وائرس پھیلنے کا خطرہ اتنا ہی شدید ہوتا ہے جتنا کہ یہ کیئر ہومز اور شیلٹرز وغیرہ میں۔ جیل میں قیدیوں کے اندر اکثر ایسے متعدد عوامل پائے جاتے ہیں جو ان کی صحت کو بہت ہی نازک اور حساس بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایچ آئی وی، تمباکو نوشی یا منشیات کے استعمال کی تاریخ ان افراد کو کسی نئے وائرس یا وبا کے خطرے سے دوچار کرنے کا سبب بنتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کے مشاہدوں سے پتا چلا ہے کہ پسماندگی، غربت اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے ناقص نظام کے شکار شہریوں کی صحت پہلے ہی سے بہت کمزور ہوتی ہے اور اگر انہیں جیل جانا پڑے تو جیل کے اندر کی صورتحال ان پر مزید منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ‘ پریزن پروگرام‘ کی ایک کنسلٹینٹ فیلیپا آلوس ڈا کوسٹا کے بقول،” جیل کے اندر 50 کی دہائی کی عمر والے افراد کو معمر یا بوڑھا سمجھا جاتا ہے حالانکہ معاشرے یا برادری میں 50 کی دہائی کی عمر والے افرواد بوڑھے نہیں تصور کیے جاتے۔
تمام سرگرمیاں بند ہسپانوی شہر بارسلونا میں محققین کی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ یورپ کے زیادہ تر ممالک نے کووڈ کے وبائی امراض کےآغاز سے ہی جیلوں کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا اور جیلوں کے دورے پر تقریباً تمام ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی یا جیلوں کے دوروں کو بہت ہی محدود کر دیا گیا تھا۔ اکثر جیلوں میں قیدیوں کے کھیلوں، تفریحی سرگرمیوں اور کام وغیرہ کو معطل کر دیا گیا تھا اور جیلوں کی چھٹیوں کی اسکیم بھی روک دی گئی تھی۔
ہنگری کی ایک جیل کا قیدی کسابا واس کہتا ہے،” یہاں تک کہ ہمارے خطوط بھی قرنطینہ کر دیے گئے۔‘‘ جرمنی، بلجیم اور ہنگری جیسے ممالک میں نئے آنے والے قیدیوں اور پہلے سے موجود ان قیدیوں کو قرنطینہ کر دیا گیا جن میں کووڈ انیس کی علامات پائی گئیں۔ وبائی امراض کے خلاف کیے جانے والے اقدامات جیسے کے سختیاں وغیرہ اور جیلوں کے ڈیٹا وژولائزیشن کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے ان سے پتا چلا کہ بہت سے ممالک میں جیلوں میں انفیکشن کی شرح عام آبادی میں اس کے پھیلاؤ کی شرح کے تقریباً متوازی نکلی۔ یعنی جن ممالک میں عام آبادی میں انفیکشن کی شرح زیادہ تھی وہیں کی جیلوں میں بھی یہ شرح زیادہ پائی گئی۔ مثال کے طور پر سلووینیا، ایسٹونیا اور بیلجیم جیسے یورپی ممالک میں جہاں ہر دس افراد میں سے ایک سے زائد شہری کا کوووڈ انیس ٹیسٹ مثبت نکلا یعنی ایک سے زائد شہری کووڈ انیس میں مبتلا پائے گئے۔
کیا کیسز اور اموات کی درست تعداد کا اندراج ؟ سرکاری اعداد و شمار اکثر سو فیصد درست نہیں ہو سکتے ۔ ہالینڈ کی لائیڈن یونیورسٹی میں یورپی جیلوں کے حالات پر تحقیق کرنے والے ایک محقق آڈریانو مارتوفی کہتے ہیں،” مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیلوں وغیرہ کی صورتحال کے بارے میں رپورٹنگ میں یقیناً مسائل پائے جاتے ہیں۔‘‘
مثال کے طور پر یونان کی لاریسا جیل میں جولائی 2021 ء تک سوکاری طور پر صرف 200 کیسز رپورٹ کیے گئے تھے جبکہ یونان کی اس جیل کے ایک قیدی وانگیلیس اشٹاتھوپولوس کا کہنا ہے کہ اُس نے اس سے کہیں زیادہ کیسز کی خود گنتی کی۔ اس کا کہنا تھا،” میں یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ صرف دسمبر 2020 ء سے اب تک ہمارے پاس 500 سے زیادہ کیسز سامنے آ چُکے تھے۔‘‘
یہ ضروری نہیں کہ ” انڈر رپورٹنگ‘‘ یا رپورٹ میں کم اعداد و شمار شامل کرنے کا عمل جان بوجھ کر کیا گیا ہو۔ یہ تنظیمی چیلنجز کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ محقق آڈریانو مارتوفی کا کہنا ہے،” جیلوں مں صحت کی دیکھ بھال پر مامور اسٹاف کی تعداد کی کمی اور ان کے پاس ضروری آلات کا فقدان ایک بڑی وجہ ہے۔ مجھے بھی یقین نہیں کہ جیل انتظامیہ کے پاس اس طرح کے ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اسے ہینڈل کرنے کی تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔‘‘
مستقبل کے لیے سبق ماہرین مستقبل میں ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے مناسب اور پیشگی تیاریوں پر زور دے رہے ہیں۔ محققین اور ماہرین کا مطالبہ ہے کہ تمام ممالک اپنی اپنی جیلوں کی آبادی میں واضح کمی لائیں۔ محقق آڈریانو مارتوفی کہتے ہیں،” یورپ بھر کی جیلوں میں جو قید افراد کی اتنی زیادہ تعداد کیساتھ ہم ایک اور وبا کا سامنا کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس تعداد کو نیچے لانا ہوگا۔‘‘
تاہم مبصرین امید کر رہے ہیں کہ کووڈ انیس کی وبا سے حاصل کردہ تجربہ مستقبل میں صورتحال پر بہتر طریقے سے قابو پانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ مبصرین تمام ممالک سے جیلوں کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے اور قید کے استعمال کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مودجودہ کورونا بحران کو ایک ” ویک اپ کال‘‘ قرار دے رہے ہیں۔