جنیوا (اصل میڈیا ڈیسک) انتہائی خطرناک ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی انٹرنیشنل میٹنگ پیر تیرہ دسمبر سے جنیوا میں شروع ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے افتتاحی خطاب میں انتہائی خطرناک ہتھیاروں پر پابندی کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی ہونے والی اس بات چیت میں کئی ممالک کے سفارت کار شامل ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد خودکار ہتھیاروں بشمول ‘قاتل روبوٹس‘ پر مکمل پابندی کے نئے قوانین پر سیر حاصل گفتگو کرنا ہے۔
جنیوا میں شروع ہونے والے پانچ روزہ اس جلاس کی صدارت عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ان خودکار ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کے حامی سرگرم افراد، گروپوں اور غیر حکومتی تنظیموں نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ خود کار ہتھیاروں بشمول ‘کلرز روبوٹس‘ پر، جو پابندی عائد کی جائے، اس پر عمل کرنا اقوام عالم کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔
جنیوا میٹنگ انٹونیو گوٹیرش نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ وہ اس نظرثانی کانفرنس سے توقع کرتے ہیں کہ اس کے مندوبین ایک ایسے جامع پلان پر متفق ہو جائیں گے، جس کے تحت خودکار ہتھیاروں کی مخصوص اقسام کے استعمال کو پوری طرح محدود بنا دیا جائے گا۔
سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس میٹنگ کے شرکاء سے کہا ہے کہ وہ مثبت مذاکرات سے ایک انٹرنیشنل معاہدے کے حصول کو آسان بنائیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ سبھی سفارت کار جمع ہیں اور وہ متفقہ طور پر انسانی معاشرت کو طاقت یا فورس کے خود مختار ہونے سے محفوظ بنائیں۔ ایک سفارت کار نے نام مخفی رکھتے ہوئے واضح کیا کہ ابھی کسی بین الاقوامی معاہدے کے لیے بھرپور حمایت کا فقدان ہے۔
خطرناک ہتھیاروں پر پابندی کا ورکنگ گروپ جنیوا میں پانچ روزہ میٹنگ میں ایک سو پچیس ملکوں کے نمائندے شریک ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، روس، امریکا، اسرائیل اور چین بھی شامل ہیں۔ یہ ممالک اس مذاکراتی عمل میں کسی حد تک زیادہ فعال اور متحرک نہیں ہیں۔
میٹنگ میں شامل آسٹریا نے ہر قسم کے خطرناک ہتھیاروں یعنی لیتھل آٹونومس ویپنز (LAWS) پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان ہتھیاروں کے حوالے سے امریکا کا کہنا ہے کہ ان کے فوائد بھی ہیں اور ان کے استعمال سے زیادہ انسانی جانوں کی ہلاکتوں کو روکنا ممکن ہو گا۔
اس میٹنگ کا بنیادی مقصد کنوینشن برائے ‘سَرٹن کنوینشنل ویپنز‘ یا مخصوص ہتھیاروں (CCW) پر پابندی کا فریم ورک تیار کرنا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سی سی ڈبلیو کے متفقہ طور پر منظور شدہ نکات ہی بین الاقوامی معاہدے کی راہ ہموار کریں گے۔
سی سی ڈبلیو کے ورکنگ گروپ کا ایک اجلاس ابھی گزشتہ ہفتے ناکامی سے ہمکنار ہوا ہے۔ اس اجلاس میں روس مختلف نکات پر متفق نہیں تھا اور اسی کی مخالفت اجلاس کی ناکامی کا باعث بنی تھی۔
خود کار ہتھیاروں پر پابندی کی بحث اقوام متحدہ کے علاوہ کئی اور ادارے بھی دنیا بھر میں خود کار ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کی میٹنگز اور کانفرنسوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آٹھ برسوں سے مختلف ممالک کے نمائندے خود کار ہتھیاروں یا لیتھل آٹونومس ویپنز (LAWS) پر گفتگو کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور قائم ورکنگ گروپ (CCW) کے سبھی اراکین ابھی تک متفقہ نکات پر اکھٹے نہیں ہو سکے ہیں۔
لیتھل آٹونومس ویپنز انتہائی خطرناک ہتھیاروں یا ‘لیتھل آٹونومس ویپنز‘ میں وہ تمام ہتھیار شامل ہیں، جو مشینوں سے کنٹرول ہوتے ہوں یا ان میں ایسی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہو، جو آرٹیفیشیل انٹیلیجنس (مصنوعی دانش) کی حامل ہو یا ایسی مشینیں، جو کسی انسانی چہرے کو پہچان کر خود ہی گولی چلا دیں۔ مصنوعی دانش کے حامل ‘کلرز روبوٹس‘ کی تیاریاں کئی ممالک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جنیوا میں شروع ہونے والے مذاکرات میں سفارت کاروں کو کسی حد تک دباؤ کا سامنا ہے اور یہ دباؤ اس رپورٹ کے اجرا سے پیدا ہوا ہے، جو رواں برس مارچ میں جاری کی گئی تھی۔ اسی رپورٹ کے مطابق رواں برس لیبیا میں کیا گیا ایک ڈرون حملہ وہ پہلا ایسا حملہ تھا، جس میں خود کار ڈرون نے اپنا ہدف خود تلاش کیا تھا۔
ایک سو بیس رکنی غیر جانبدار ممالک کی تنظیم نان الائینڈ موومنٹ (NAM) نے وینزویلا کی قیادت میں ایسے ہتھیاروں پر لازمی پابندی عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔